عشق جاوداں

By ezza_writes

295 22 21

ایک محب وطن کی کہانی۔حب الوطنی میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کہانی۔ہنانی اور بسمہ کے عشق کی داستان۔ More

راہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا

294 22 21
By ezza_writes

وہ دونوں کھڑکی کے بلکل سامنے موجود صوفوں پر دراز تھیں۔دونوں سنگل صوفے ساتھ ساتھ رکھے ہوئے تھے۔کھڑکی سے آتی ٹھنڈی ہوا دونوں کی زلفوں کی دیوانی محسوس ہورہی تھی جبھی تو بار بار ان کے بالوں کو بکھیر رہی تھی۔برائون آنکھوں والی اب تنگ آنے لگی تھی ،وہ اک ہاتھ سے اپنے بالوں کو کان کے پیچھے کرتی اور کبھی اپنے رسالے کو گرنے سے بچاتے ہوئے اور مضبوطی سے تھامتی ۔۔اور پھر ناول کو انچی آواز میں پڑھنے لگتی۔ جب کے نیلی آنکھوں والی بیزاری کے ساتھ اپنی زلفوں کو پیچھے کرتی تو کبھی پڑھنے والی کی طرف دیکھتی۔۔

"اور پھر عریبیہ نے ارحان کے کندھے پر اپنا سر ٹیک دیا.." برائون آنکھوں والی لڑکی نے خوش دلی سے ناول کا اختتام سنایا۔

"یار زونی.. یہ کیسا بورنگ سا اینڈ ہوا.. ہیرو نے ہیروان کو منا لیا اور پھر وہ ہنسی خوشی رہنے لگے..." بسمہ نے منہ بناتے کہا..

"بسمو اور تجھے کس طرح کا اختتام چاہیے اتنا اچھا تو ہوا ہے.. کہانی کے اختتام پر دونوں مل گئے.."

"نہیں یہ بھلا بھی کوئی محبت کی داستان ہوئ.. محبت کی داستان تو وہ ہوتی ہے جہاں کہانی ادھوری رہ جاتی ہے اور محبت کامل ہوجاتی ہے.. جہاں دو محبوب جدا ہوکر بھی ہمیشہ کیلئے ایک ہوجاتے ہیں.. جہاں اب کا عشق ہمیشہ کیلئے امر ہوجاتا ہے۔"

" اچھا اور یہ عشق امر کیسے ہوتا ہے آپ کے خیال میں۔۔"

" جب دو محبوب اس فانی دنیا میں نہیں مل پاتے.. سچے جذبات ہونے کے باوجود بھی ان کی قسمت میں جدائی لکھ دی جاتی ہے.. اور وہ قسمت کے فیصلے کو مانتے ہوئے اپنی حدود کی پیروی کرتے ہوئے اپنے قدم گناہ سے روک لیتے ہیں ۔محض اس آس پر کہ وہ حقیقی دنیا میں ایک دوسرے کو پالیں گے.. "

" ہمم.. مگر اس دنیا میں بھی تو ساتھ رہ کر اگلی دنیا میں پھر سے ملن کی آرزو کی جاسکتی ہے نا.. "

" ہاں زونی مگر جو مزا جدائی میں ہے نا وہ وصل میں کہاں... "

" توبہ ہے لڑکی تم بھی نا بہت عجیب ہو.. "

" تمہیں پتا ہے اگر مجھے کبھی محبت ہوئ نا تو میں تو ایسی ہی اینڈنگ چاہوں گی اپنی محبت کی... " کہتے ساتھ اس نے ہوا میں قہقہہ بلند کیا۔۔" کتنا مزا آتا ہوگا نا یوں دکھی دکھی رہنا اور محبوب کا سوچتے رہنا.. "

" استغفراللہ... اللہ پاک تمہارے حال پر رحم کرے.. پاگل لڑکی.. پتا نہیں بیچارے ہنان کا کیا ہوگا.. "

" وہی ہوگا جو بسمہ کی چاہ ہوگا.. " بسمہ میز پر سے کپ اٹھاتے بولی..

"اللہ نا کرے وہ سب ہو.. " زونیرہ نے فکرمندی کے تاثرات لئے کہا۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرزانہ بیگم مصلح پر بیٹھی ہاتھ اٹھائے دعا کرنے میں مشغول تھیں ،جب اس نے پیچھے سے انہیں اپنے بازؤں کے گھیرے میں لیتے سلام کیا۔فرزانہ بیگم نے ہاتھ اٹھائے رکھتے ہوئے ہلکی سی گردن گھما کر اس کے ماتھے کو چوما۔ہنان نے سوالیہ نگاہوں سے ماں کو دیکھا..فرزانہ بیگم نے ابرو اچکا کر پوچھا "کیا...؟"

"آپ نے وہ مانگا جو میں نے کہا تھا.."

ان کے چہرے کے تاثرات اچانک سے بدلے "ایک ماں اپنے بیٹے کی موت کی دعا کیسے کرسکتی ہے.

.""موت کی نہیں ماں.. شہادت کی.. شہید تو کبھی نہیں مرتا بلکہ وہ تو اپنے رب کے ہاں سے رزق پارہا ہوتا ہے.."

اس نے ان کے سر پر بوسہ دیا "ماں آپ نا صحابہ کی جنگوں کے قصے پڑھا کریں.. پھر آپ کہیں گی میرے دس بیٹے بھی ہوتے تو میں دعا کرتی وہ شہادت کی موت پائیں.. "

" دس ہوتے تو شاید دعا کر ہی لیتی.. مگر تم ہماری نسل کو جاری رکھنے کی واحد امید ہو.. ہمارے نام کو زندہ رکھنے کی واحد کرن.. "

اس نے پیار سے اپنی ماں کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لیتے پیار کیا .." ماں نام انسانوں سے تھوڑی نا زندہ رہتے ہیں ۔یہ تو اعمال کے آبِ حیات سے تاقیامت زندہ رہتے ہیں.. میں چاپتا ہوں جب کوئی ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کو یاد کرے تو ان میں کہیں ہمارا بھی ذکر ہو کہ ہماری نسل نے ان کے تحفے کو اپنے خون سے سیراب کیا ہے.."

وہ بیٹے کی سوچ پر مسکرا دیں اور دل میں رضا بھی ظاہر کردی اپنے رب کے حضور اس کی خواہش کی تکمیل کیلئے..........

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ لان میں پودوں کو پانی دینے میں مصروف تھی جب وہ چلتا ہوا اس کے پاس آیا.." سنا ہے تم ہماری کہانی کی سیڈ اینڈنگ چاہتی ہو.. "

وہ اس کی آواز کانوں میں پڑتے ہی پلٹی، چہرے پر خوشی، لبوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں چمک نے بسیرا کرلیا

"تم.. تم کب آئے.." اس نے خوشی سے لبوں پر ہاتھ رکھتے کہا..

"بس یہی کوئی ایک گھنٹہ پہلے.."

وہ جو خوشی سے چہک رہی تھی کچھ یاد آنے پر فوراً سے سنجیدہ ہوگئ" اچھا.."

"اچھا..." ہنان نے اس کی نقل اتارتے کہا "یہ اچھا کیا ہوتا ہے.."

وہ پانی کا پائپ وہیں پر رکھ کر کرسیوں کی جانب بڑھ گئی۔"یار یہ اچانک تمہارے موڈ کو کیا ہوگیا.. ابھی چند سیکنڈ پہلے کی خوشی کی جگہ اس غصے نے کیوں لے لی.."

"کیوں نکہ میں ابھی تک بھولی نہیں ہوں کپتان صاحب.. لاسٹ ٹائم آپ مل کر نہیں گئے تھے.. تو اب کیسے آنا ہوا.."

وہ اس کے شکوے پر مسکرا دیا"یار اتنی ارجنٹ بلایا تھا کے تمہیں اللہ حافظ کہنے آہ ہی نہیں سکا.. "

ناراضگی ہنوز برقرار رہی تو اس نے کان پکڑ لئے" اچھا بھئی آئندہ کیلئے خیال رکھوں گا.. "

" ٹھیک ہے.. ویسے ایک نصیحت ہے کیپٹن صاحب.. کچھ بھی ہوجائے خدا حافظ ہمیشہ جذبات سے بھرا ہونا چاہیے.. پوچھئے کیوں "

اس نے دلچسپی سے پوچھا" کیوں.. "

" کیونکہ یہ لمحہ آخری یاد کی طرح پیچھے رہ جانے والوں کے دلوں میں ہمیشہ کیلئے گھر کر جاتا ہے.. "

اس نے اس کی بات پر اثبات میں سر ہلا دیا.." یہ لڑکی اور اس کی فلاسفیاں پتا نہیں شادی کے بعد میرا کیا ہونے والا ہے" وہ صرف یہ سوچ ہی سکا۔زونیرہ درمیان میں موجود گول میز پر چائے کے کپ رکھنے کے بعد کرسی پر بیٹھی۔

" ہنان.. تو پھر تم نے کیا سوچا.. "

اس کے سوال نے بسمہ اور ہنان دونوں کو ہی حیران کر دیا۔" کس بارے میں.. "

" یہی کے ہیپی اینڈنگ چاہیے اپنی سٹوری کی یا بسمہ.. " زونیرہ نے آنکھ دباتے کہا تو وہ ہنس دیا

"بسمہ کی محبت ہو اور اختتام اچھا نا ہو ایسا ہو ہی نہیں سکتا.. " اس کے جواب پر بسمہ زونیرہ کو جتاتی نظروں کے ساتھ دیکھتی مسکرا دی ۔ان تینوں کی باتیں ایسی ہی تھیں.. گھر والے سنتے تو ان کو اکثر لگتا کہ کہیں کوئی ڈرامے یا ناول کے پلاٹ کی بات ہورہی ہے، کیونکہ زونیرہ کو ناول ریڈنگ بہت پسند تھی۔وہ ناول ریڈ کرتی تھی اور بسمہ سنتی تھی۔

"تمہارا سکول کیسا جارہا ہے.."ہنان نے چائے کا کپ لبوں سے لگاتے بسمہ سے سوال کیا۔ بسمہ اپنی پڑھائی مکمل کرچکی تھی اور اب اس نے اپنی جاب کے ساتھ ساتھ ایسے بچوں کیلئے سکول کھولا تھا جنہوں نے چھوٹی سی عمر سے ہی اپنی پڑھائی کو ترک کرکے کام شروع کردیا تھا۔اس نے ان بچوں کیلئے امید کا دیا جلانے کی کوشش کی تھی ۔وہ ان بچوں کو کاپی کتابیں دینے کے ساتھ ماہانہ تنخواہ بھی دیتے تھے جس سے ان کا گزارہ ہوسکے اور ان کے گھر والے انہیں پڑھائی سے نا روکیں۔ یہ سکول بسمہ، اس کے دوستوں اور ایسے افراد نے مل کر کھولا تھا جو صدق دل سے اپنے وطن کیلئے کچھ کرنے جا جذبہ رکھتے تھے۔

"بہت اچھا جارہا ہے.. اس مہینے تو طلباء کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے.."

"ماشاءاللہ.. اگر کوئی بھی مسئلہ ہو تو بتانا.."ہنان کے لہجے میں پختگی محسوس کرتے وہ مسکرا دی........

وہ دونوں ساحل سمندر پر موجود تھے. ٹھنڈا پانی اور گیلی ریت اندر تک خوش گوار سا احساس بھر رہے تھے. دونوں مناسب فاصلہ رکھتے ہوئے چل رہے تھے۔

" تمہیں پتا ہے میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے.. "

" ہمم.."

"پھر بھی تمہیں ڈر نہیں لگتا مجھے اپنا ہمسفر بنانے میں.."

"پتا نہیں.. لگتا ہے شاید.. شاید بہت زیادہ لگتا ہے.. یہ تو صرف تمہاری خواہش ہے مگر اصل اختیار تو اللہ کے پاس ہے نا"

"اور اگر اللہ کی منشاء بھی میری خواہش کا پورا ہونا ہوئی .. ؟"ہنان نے اس کے چہرے کے جانب دیکھتے سوال کیا وہ اس کے چہرے کے اتار چڑھائو باخوبی دیکھ رہا تھا۔

" تو یہ کہ موت تو سب کو آنی ہے تو پھر شہادت کیوں نہیں.. ہاں بس یہ دعا ہے کے میری موت سے پہلے تمہیں شہادت نصیب نا ہو.. "بسمہ نے آنکھ دباتے اسے چھیڑا۔

" یار تم عورتوں کا یہ فلسفہ بھی نا بڑا عجیب ہے.. مطلب شوہر سے پہلے چلے جائو اور بیچارے کو اس دنیا کے رحم و کرم پر اکیلا چھوڑ جائو"ہنان نے ماحول کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش کی۔

" اکیلا کہاں ہوتا ہے۔۔جب چاہے اپنی ساتھی لے آئے.. وہ بھی برینڈ نیو.."بسمہ نے یہ جملہ کافی ہلکے موڈ میں کہا تھا مگر کچھ دیر پہلے کی کی گئی باتیں اس کے لہجے کے درد کو چھپا نا سکیں تھیں۔

ہنان اس کے سامنے آکر رکا۔۔۔

" مگر میں تمہیں رخصت ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا بسمہ..اس لئے کبھی بھی مجھ سے پہلے جانے کی کوشش ہرگز مت کرنا "

وہ جو ابھی ملے بھی نہیں تھے انہیں جدائی کا دکھ پہلے سے ہی جلانے لگا تھا۔

بسمہ ہنس دی"واہ.. کیا کوئی کہہ سکتا ہے میرے سامنے کھڑے ہوکر یہ سب کہنے والے کیپٹن ہنان ارشاد ہیں "

" تو کیا ہم آرمڈ فورسز والوں کے پاس دل نہیں ہوتے.. " وہ اس کی بات کا برا منا گیا تھا جبھی اس نے منہ بناتے کہا اور بسمہ ناچاہتے ہوئے بھی خود کو قہقہہ لگانے سے باز نہ رکھ سکی..........

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج ان دونوں کا سادگی کے ساتھ نکاح کردیا گیا تھا. چونکہ اس کو کافی عرصے کے بعد اتنی لمبی چھٹی ملی تھی اور پھر ہنان بھی اس بار نکاح کئے بغیر واپس نہیں جانا چاہتا تھا.............

"تم تو نکاح کے بعد کافی خوبصورت لگ رہی ہو.."اس نے بسمہ کو چھیڑنے کی نیت سے کہا۔

"اپنے بارے میں کیا خیال ہے کیپٹن صاحب مانو تو آج نکاح کے دن بھی آپ پر کوئی خاص روپ نہیں آیا.."

ہنان کا تیر نشانے پر لگا تھا جبھی تو بسمہ نے اپنا دوپٹا ٹھیک کرتے تڑخ کر جواب دیا۔

" دیکھ لو یہ تو پھر تمہاری محبت کی بات ہے.." اس نے بسمہ کے قریب ہوتے اس کے کان میں سرگوشی کے سے انداز میں کہا۔

" میری محبت کا اثر دیکھو تم کتنی حسین لگ رہی ہو.. جب کہ مجھ پر تو کوئی خاص روپ ہی نہیں آیا.."

بسمہ نے سر جھکا لیا۔

"کہیں تمہاری محبت بھی تو میڈ ان چائنا نہیں ہے.. "

اس کے کہنے کے ساتھ ہی بسمہ نے فوراً سر اٹھا کر اسے گھوری سے نوازا"کیپٹن صاحب دو منٹ نہیں لگیں گے آپ کو میڈ ان چائنا کا پتا دینے میں.. لحاظا جیسے میں آج اچھی دلہنوں کی طرح پیش آرہی ہوں آپ بھی اچھے شوہروں کی طرح رہنے کی کوشش کریں.. "

وہ اس کی بات پر ہنس دیا اور پھر اس کا ہاتھ تھام کر چلنے لگا۔

"اچھا یہ بتائو اگر تم سے پوچھا جائے کہ شہید ہونے سے پہلے تمہاری آخری خواہش کیا ہوگی تو.. "

بسمہ نے اپنا اندازہ دیکھنے کیلئے اس سے سوال کیا۔

" تو میں ایک آخری بار تمہیں اور ماں کو اپنے سامنے دیکھنا چاہوں گا.."اس نے بسمہ کے ماتھے پر اپنی محبت کی مہر ثبت کرتے کہا تو بسمہ مسکرا دی۔اس نے ٹھیک سوچا تھا، وہ جانتی تھی وہ کچھ ایسا ہی کہے گا۔

" پتا ہے بسمہ کبھی کبھی مجھے ان کپلز پر رشک آتا ہے جن کو شہادت نصیب ہوتی ہوگی.. دونوں شہداء کی فہرست میں آتے ہوں گے.. "ہنان نے دور آسمان پر چمکتے ستارے کو دیکھتے کہا تو بسمہ اچانک گڑبڑا گئ۔

"توبہ کریں کیپٹن صاحب آپ کی خواہش تک تو ٹھیک تھا مگر مجھے.. مجھے تو مت اس میں شامل کریں.. "

" کیوں نا کروں.. جن سے آپ پیار کرتے ہیں آپ چاہتے ہیں کہ ان کا اختتام عمدہ ہو.. "

" ہوں.. مگر پھر بھی مجھے ڈر لگتا ہے.. اتنا جگرہ آرمی آفسرز میں ہی ہوسکتا ہے جو اپنی موت کو سامنے دیکھتے ہوئے بھی اپنے ملک کی خاطر میدان میں کود جاتے ہیں.. "بسمہ نے ہنان کے کندھے پر سر ٹیکتے کہا۔

" مجھے ایسے اختتام سے بہت ڈر لگتا ہے ہنان.. جس میں آپ خود کو اپنی موت کی طرف بڑھتا دیکھ رہے ہوں .. آپ دیکھ رہے ہو ں کہ بس اب آپ کا اپنے پیاروں کو الوداع کہنے کا وقت آچکا ہے.. یہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے.. "

" تمہیں پتا ہے میرے پاس تمہارے لئے شادی کا تحفہ ہے.."

"ہیں شادی کا تحفہ.. پہلے نکاح کا تو دے دیں.. "

" ارے دے تو دیا.. "

بسمہ حیران ہوگئی " کیا ہوگیا کیپٹن صاحب میرے منہ پر ہی مکر رہے ہیں.. کب دیا ہے تحفہ.. "

" مسز ہنان اب آپ ایسے کہہ کر میری انسلٹ تو نہ کریں نا.. "ہنان کا اشارہ اپنی طرف تھا۔ وہ خود کی موجودگی کو اس کا تحفہ گردان رہا تھا جب کہ بسمہ اس کی اس خوش فہمی پر اچھے طریقے سے پانی پھیر چکی تھی۔

" اچھا بتائیں.. کیا پلین کیا ہے "

" پلین یہ کیا ہے کہ شادی کے بعد میں اور میری مسز گھومنے کیلئے ترکی جائیں گے.. آپ کو آیا صوفیہ دیکھنے کا شوق ہے نا.. تو بس اب آپ کے یہ کیپٹن صاحب آپ کی یہ خواہش ضرور پوری کریں گے.."

بسمہ مسکرا دی"الحمدللہ.. الحمدللہ.. ہنان اللہ کے فیصلے کتنے بہترین ہوتے ہیں نا.. دیکھئے اس نے کیسے ہم دونوں کو ایک دوسرے کا ہمسفر بنا دیا.. "ہنان خاموشی سے اسے سنتا رہا..

" ہنان.. اگر میں کبھی آیا صوفیا نہ جاسکی تو آپ ضرور جائے گا اور محسوس کی جئے گا اللہ پاک کی قدرت کو کہ کیسے اس نے یہودیوں کی عبادت گاہ کو اپنے زکر سے آباد کروا دیا."

"کیوں.. تم کیوں نہیں جاسکو گی.. ہم ضرور جائیں گے انشاءاللہ.. "بسمہ نے اس کی بات پر سر ہلانے سے ہی اکتفا کیا۔

..............

اس کو یہ نیک کام شروع کئے دو ماہ ہوگئے تھے، پہلے وہ صرف اپنے گھر میں آس پاس کے بچوں کو پڑھا دیتی تھی ۔ مگر اب کچھ ماہ پہلے ہی سے اس نے اور اس کے دوستوں نے مل کر چند کمروں پر مشتمل سکول بنایا تھا۔ جس میں وہ سبھی کسی نا کسی طریقے سے اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کررہے تھے۔ کوئی فنڈز فراہم کررہا تھا تو کوئی اپنے وقت میں سے کچھ وقت نکال کر ان پھولوں کو اپنے علم سے سیراب کرنے کی کوشش کررہا تھا۔

سب نے اپنے ووٹ سے بسمہ کو سکول کا ہیڈ بنایا تھا۔وہ ناصرف سکول کے اندرونی معاملات کیلئے ہیڈ تھی بلکہ سکول اور سوسائٹی کے معاملات بھی وہی دیکھ رہی تھی۔ یہی بات اس کے گھر والوں کو کافی پریشان کررہی تھی ، ان کے خیال میں ملک کے حالات کے پیش نظر سب کو اپنے کام سے ہی غرض رکھنی چاہئے اور اس کی ایک وجہ بھی تھی۔ جب بسمہ نے سکول شروع کیا تھا تب تو اتنے بچوں نے ایڈمیشن نہیں لیا تھا، مگر اب بسمہ اور اس کی ٹیم نے کافی لوگوں کی پسماندہ سوچ کو بدل دیا تھا، انہیں ایک روشن راہ دیکھانے کا سبب بن رہے تھے، اور یہی بات وہاں کے سیاسی لیڈروں کو ہضم نہیں ہورہی تھی۔ جو لوگ آج سے پہلے ان کی جوتیاں سیدھی کرتے نہیں تھکتے تھے اب ان میں ایک نئی رمق جگانے کی کوشش کی جارہی تھی۔ انہیں اس قابل بنانے کی کوشش کی جارہی تھی کے وہ اپنے حقوق سے متعلق سوال کرسکیں۔۔یہی خوف تھا جس نے انہیں بسمہ کے در پر حاضری دینے کیلئے مجبور کردیا تھا۔

ابھی تک تو وہاں کا سیاسی سردار صرف اس کے گھر آکر اس کے بڑوں سے بات کے زریعے ہی اس معاملے کو سلجھانے کی کوشش کررہا تھا۔ مگر ایسے لوگوں سے کچھ بھی بعید نہیں،کسی وقت بھی کیا کرجائیں۔ اس کے گھر کے سب بڑے اسے سمجھانے کی کوشش کر چکے تھے کہ

"وہ لڑکی ذات ہے اسے قدم زیادہ سوچ سمجھ کر اٹھانے کی ضرورت ہے۔اتنے سارے لوگوں میں صرف تمہیں ہی کیوں پڑی ہے ان لوگوں کیلئے۔۔اپنے ملک کیلئے کچھ کرنے کی۔۔کیا فائدہ ایسا کام کرنے کا جس میں انسان کی جان کی ہی ضمانت نہ ہو۔۔"

یہ سب اس کے ارد گرد والوں کی سوچ تھی جو کسی نا کسی طرح سے بسمہ کی بھی ایسی ہی سوچ بنانے کی کوشش کررہے تھے،اور وہ ان سب باتوں کا جواب کچھ اس طرح دیتی تھی۔

"میرے ساتھ جو ہونا ہے وہ میری تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے۔۔اس لئے میں کچھ بھی کرلوں میں اس نقصان سے نہیں بچ سکتی۔۔اتنی ساری مخلوق میں سے اس نے مجھے ہی ایسی سوچ دی ہے تو کیوں نا میں اس کی زکوۃ ادا کروں۔۔اگر ہم سب یونہی موت کے خوف سے ڈر کر بیٹحھ جائیں گے تو کیا ہم اپنے ملک کو سنبھال سکیں گے۔۔؟کل کو ہم اپنے شہداء کو کیا جواب دیں گے۔۔۔"

یہ سب بسمہ کے دلائل تھے جسے سن کر اس کے گھر والے ہر بار چپ کرجایا کرتے تھے یاں یوں کہنا بہتر ہوگا کہ کوئی جواب نا بن پانے پر انہیں خاموش ہونا پڑتا۔ ہنان نے اسے ان سب پر کچھ نہیں کہا تھا کیونکہ بسمہ نے بھی آج تک اس کے خوابوں کی تکمیل میں رکاوٹ نہیں ڈالی تھی۔وہ دونوں کبھی بھی ایک دوسرے کے خوابوں پر، خواہشوں پر سوال نہیں کرتے تھے۔ اک زونیرہ تھی جو ہمیشہ اس کا حوصلہ بڑھاتی رہتی تھی، اور کہیں نا کہیں اس کی حوصلہ بڑھاتی باتوں نے اسے ابھی تک گرنے نہیں دیا تھا۔

وہ لان میں چکر کاٹ رہی تھی جب اسے کسی انجانے نمبر سے کال آنے لگی۔ وہ اس وقت ایک پرائیویٹ کمپنی میں بھی کام کررہی تھی،ہر کسی کا نمبر اس کے موبائل میں سیو نہیں ہوتا تھا۔ بہت سے کلائنٹ ایسے تھے جو کمپنی سے اس کا نمبر لے کر اسے ڈائیریکٹ کال کرلیتے تھے، یہی سب سوچتے اس نے کال اٹھا لی۔

"تو پھر آپ نہیں مانیں گی بی بی"

دوسری طرف سے کیا گیا مطالبہ سن کر ہی وہ سمجھ چکی تھی کے کال کس مقصد کیلئے کی گئی ہے۔

"نہیں۔۔" اس نے لہجہ سخت کرتے دوٹوک جواب دیا۔

"اب آگے کے نتائج کی ذمہ دار آپ خود ہوں گی، میں نے تو انسانیت کے ناطے سمجھانے کی کوشش کی تھی، پر جب آپ خود ہی خود کی دشمن ہیں تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔۔"

"جی مہربانی آپ کی۔۔ہر انسان اپنے عمل کا خود زمہ دار ہوتا ہے۔ آگے آپ خود سمجھ دار ہیں۔۔"

"بی بی ناجانے کتنے ہی ایسے سبق پڑھانے والوں کو ہم جنت کا ٹکٹ دلوا چکے ہیں، بس آپ کو اتنی جلدی دنیا سے کوچ کرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔۔"

بسمہ نے کال کاٹ دی۔ وہ موبائل اپنی شرٹ کی جیب میں ڈالتے ہوئے پلٹی تو ہنان اس کے ہی انتظار میں کھڑا تھا، وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دی اور پھر لان میں پڑی کرسیوں کی جانب بڑھ گئی۔

"تم کب آئے۔۔؟ آنے سے پہلے بتایا بھی نہیں۔۔"

"پہلے کیا بتا کر آتا ہوں۔۔؟ جو آج ایسا سوال پوچھ رہی ہو۔۔"

"پہلے کی بات اور تھی۔ اب تم اس گھر کے داماد ہو کوئی احتممام کرنا تو بنتا ہے نا"

بسمہ آنکھ دباتے بولی تو وہ ہنس دیا۔

"تو تم نے پیچھے نا ہٹنے کا فیصلہ کیا ہے؟" ہنان نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے سوال کیا۔

"ہمم۔۔" اس کی نظریں ہاتھ میں پکڑے پھول پر تھیں۔

"اور اگر انہوں نے سچ میں کچھ الٹا کردیا تو۔۔" خوف زدہ تو وہ خود بھی تھا اسے کھونے کے ڈر سے مگر اس تکلیف کے بدلے جو انعام ملنے کی توقع تھی وہ اس کے لہجے کو پرسکون بنا رہا تھا۔

"تو۔۔جو میری قسمت"

"تمہیں ڈر نہیں لگ رہا۔۔؟"

"ہنان صاحب!ایک کیپٹن کی بیوی کو ڈرنا زیب دیتا ہے کیا؟" اب کی بار اس نے آنکھوں میں شرارت لئے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کے یوں جواب دینے پر وہ ایک بار پھر ہنس دیا۔ اس نے پھولوں کے ساتھ کھیلتے اس کے دونوں ہاتھوں کو تھاما۔

"تمہیں پتا ہے تم بلکل ویسی ہو جیسی میں نے اپنی شریک حیات کی خواہش کی تھی۔۔"

"کیپٹن صاحب آپ سرحد پر کھڑے ہوکر اپنے ہتھیار اتار رہے ہیں، خبردار رہئے دوسرے ملک کی فوج نے دیکھ لیا تو کیسے مقابلہ کریں گے۔۔"

"آپ پریشان نا ہوں جان جاناں وہ ملک بھی ہمارا ہے اور اس کی فوجیں بھی۔۔" ہنان نے اسے آنکھ مارتے کہا۔

"تم دونوں ابھی تک یہیں بیٹھے ہو،تم تو بسمہ کو باہر لے کر جانے والے تھے"

نسیمہ بیگم نے پیچھے سے آتے کہا تو وہ دونوں ہنس دئے۔

"کہا تھا نا اپنی ہی فوجیں ہیں۔۔"

بسمہ نے اسے سر کے اشارے سے سراہا "جی۔۔جی۔۔مان گئے آپ کو۔۔'

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ دونوں اس وقت ایک شاندار سے ریسٹورنٹ میں ڈنر کرنے آئے تھے۔ ہنان نے اس کی چئیر پیچھے کھینچتے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا، اس کے بیٹھنے کے بعد وہ میز کی دوسری طرف آیا اور اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ انہوں نے بالکونی پر موجود ٹیبل ریزرو کروائی تھی۔ بسمہ اس وقت جامنی رنگ کی فراک جس پر سیلور رنگ کی کڑھائی کی ہوئی تھی زیب تن کئے ہوئی تھی۔ سائیڈ کی مانگ نکال کر دونوں طرف تھوڑے سے بالوں کی چٹیا کی ہوئی تھی۔ اس حلئیے میں وہ بلکل نازک سی گڑیا لگ رہی تھی، اور یہ گڑیا کتنی نازک تھی یہ صرف ہنان ہی جانتا تھا۔ وہ دونوں کہنیاں ٹیبل پر رکھے اور ہاتھوں کو آپس میں ملائے اس پر چہرا ٹکائے سامنے کے منظر سے لطف اندوز ہورہی تھی جہاں پر بہت سارے پھول اپنے رنگوں سے ماحول کو رنگین بنا رہے تھے۔ ہنان آرڈر دے کر اب اس کی طرف متوجہ ہوا تھا۔

"جانتی ہو آج میں یہاں تمہیں صرف اچھی اچھی باتیں کرنے کیلئے لایا ہوں، کوئی دکھی باتیں نہیں ہوں گی۔۔"

اس کا شارہ اپنی باتوں کی طرف تھا جو وہ ہر وقت کرتا تھا پھر چاہے وہ شاپنگ پر ساتھ آئے ہوں یاں آئوٹنگ کیلئے۔ اور وہ بات ہمیشہ شہادت کی ہوتی تھی۔ بسمہ کبھی اس کی اس بات سے تنگ نہیں آئی تھی وہ ہمیشہ اس کی سنتی تھی پھر چاہے پہلے سے دکھی ہو یا خوش۔

"اور یہ اچھی باتیں کیا ہیں۔۔"

"اچھی باتیں۔۔اچھی باتیں وہ ہیں جو تم کرو گی اور میں سنوں گا۔۔"

بسمہ ہنس دی۔

"یہ تم ایسے کیوں بی ہیو کررہے ہو جیسے میں آج پہلی بار تمہارے ساتھ یوں باہر آئی ہوں۔۔"

"پہلی بار تو نہیں۔۔پتا نہیں کیوں دل کیا کے یوں تمہارے ساتھ باہر آئوں اور تمہیں سنوں۔۔ہمیشہ میں ہی تو سناتا رہتا ہوں"

"ہنان۔۔" وہ کسی ٹرانس میں بولی۔

"کیا تمہیں لگتا ہے ہم بھی اپنی زندگی کے خوشگوار لمحے اک ساتھ دیکھیں گے۔۔"

ہنان خاموش رہا۔۔۔وہ ہلکا سا مسکرا دی۔

"دیکھا مجھے بھی ایسا نہیں لگتا۔۔"

بسمہ پہلی بار اپنا خوف زبان پر لے کر آئی تھی اور اس نے کیسے اپنے خوف کو بیان کیا تھا یہ وہی جانتی تھی۔ دونوں کی نظریں نیچی ہی تھیں،دونوں میں سے کسی کی ہمت نہیں ہوئی تھی کے نظریں اٹھا کر سامنے والے کی آنکھیں پڑھ سکے اور تکلیف کو محسوس کرسکے، دونوں ہی اپنی جگہ تکلیف میں تھے۔

"بسمہ تمہیں پتا ہے میں نے اب تک جانے کتنے ہی مشنز کئے ہیں، اور بلا خوف و خطر لڑا ہوں۔ ایک پل کو بھی کبھی دل میں اپنی جان کو لے کر خوف زدہ نہیں ہوا۔۔مگر جب جب تمہارا خیال آتا ہے تو ڈر جاتا ہوں تمہیں کھونے کے خوف سے۔۔پتا ہے ماں کہتی ہیں میں بہت بہادر ہوں جو اپنی شہادت کی دعا خود کرتا ہوں۔۔مگر پتا ہے بسمہ میں شہادت تمہارے بچھڑنے سے پہلے چاہتا ہوں۔۔پتا نہیں کیوں مگر تمہارا اور ماں کا خیال آتے ہی میں کمزور پڑ جاتا ہوں"

دونوں کی آنکھوں میں پانی بھر آیا تھا۔ اب اس کے ہاتھ تھامنے میں بسمہ نے پہل کی تھی۔

"دیکھو ایک بار تو سب کو ہی بچھڑنا ہے نا پھر کبھی نا بچھڑنے کیلئے۔۔چلو آج ایک دوسرے سے وعدہ کرتے ہیں دونوں میں سے جس کو بھی جدائی برداشت کرنی ہوگی وہ مظبوط بن کر برداشت کرے گا۔۔خود کو ٹوٹنے نہیں دے گا اور یاد رکھے گا کے ہم دونوں سے زیادہ ہم پر اس وطن کا قرض ہے جس کو چکانے کیلئے وہ اپنی آخری سانس تک محنت کرے گا۔۔"

ہنان نے اس کی بات سن کر سر اثبات میں ہلا دیا۔۔

"ویسے ضروری تو نہیں ہے ناں کیپٹن ہر بار اندیشے سچ ثابت ہوں۔۔؟"

بسمہ نے اپنے لہجے میں فکرمندی اور خوف سموئے کہا تو وہ ہنس دیا، اور اسے ہنستا دیکھ کر بسمہ بھی ہنس دی۔اسی دوران بہرہ بھی کھانا لے آیا اور سرو کرنے لگا۔۔

"پتا نہیں شادی کے بعد میرا کیا ہوگا۔۔اگر تمہاری اچھی باتیں یہی ہیں تو"

بسمہ نے اسے چھیڑتے کہا۔

"کیا۔۔میں کرتا ہوں ایسی اچھی باتیں؟ آپ تو ابھی سے بھلکڑ ہوگئی ہیں مسزجب کے ابھی تو میرے معصوم جانبازوں نے آپ کو تنگ بھی نہیں کیا۔۔"

بسمہ نے خود کو بلش کرنے سے روکنے کیلئے جوس کا گلاس لبوں کو لگا لیا ، چند سیکنڈ لگے تھے اسے خود کو کمپوز کرنے میں۔

"جی۔۔ان جانبازوں کے کمانڈر اور والد ماجد کم ہیں ناک پر دم کرنے کیلئے۔۔"

بسمہ کی بات پر ہنان کا قہقہہ جاندار تھا۔ وہ دیکھ چکا تھا کیسے اس نے خود کو کمپوز کرتے حساب برابر کیا تھا۔ اس کی یہی باتیں تھی جو ہنان کو اس کا گرویدہ کرتی تھیں۔

..................

ہنان بسمہ کو اس کے گھر ڈراپ کرنے کے بعد اپنے گھر لوٹا تھا۔ اس نے اپنے بازو سے گھڑی اتار کر سائیڈ میز پر رکھی اور تکیہ سیدھا کرتے لیٹ گیا۔وہ ابھی تک بسمہ کی کہی ہوئی باتیں سوچ رہا تھا۔ انہی سوچوں نے کتنے ہی عرصے کے بعد آج ماضی کی یاد دلائ تھی۔وہ ہر اتوار کی طرح آج گھومنے نکلے تھے،بسمہ کے والد ان کو ہر ہفتے کہیں تفریح کیلئے لے کر جاتے تھے۔ آج وہ ان کو پی ایے ایف میوزیم لے کر آئے تھے۔وہ دونوں بچے بھاگتے ہوئے مصنوعی پہاڑی کی جانب بڑھے ۔ جس کو رسی کے ذریعے سر کرنا تھا۔وہ دونوں بچے اس پہاڑی کو سر کرنے میں ایسے مگن تھے جیسے سچ میں دشمن نے للکار دیا ہو اور اب وہ اس پہاڑی کے پار اپنے دشمن کو جواب دینے جارہے ہوں۔اس سب کے بعد وہ میوزیم کے اندرونی حصے کی جانب چل دئے۔ دونوں بچوں کی آنکھیں وہاں موجود چیزوں کو دیکھ کر چمک رہی تھیں.. ان کی آنکھیں ان کے ولولے اور جب الوطنی کی عکاسی کررہی تھیں۔

ہنان نے گلاس کے اندر موجود شہداء کی چیزوں کو دیکھتے کہا

"ہنان ایک دن تمہیں بھی تمہارا وطن ایسے پکارے گا اور تم بھی ان ہیروز کی طرح پیچھے نہیں ہٹو گے.."اس نے یہ بات صرف خود کو باور کروانی چاہی تھی، مگر بسمہ بھی سن چکی تھی۔جبھی وہ اس کی طرف بڑھی اور اپنے ہاتھ کی پشت اس کے سامنے کرکے عہد کیا

"ہم دونوں عہد کرتے ہیں ہم کبھی بھی اپنے وطن کیلئے قربانی دینے سے دریغ نہیں کریں گے.. "بسمہ کے کہتے ہی ہنان نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے وہی سب دہرایا۔"اور ہم بڑے ہوکر اپنے لوگوں کی مدد کریں گے.."یہ جملہ دوہراتے ہی دونوں نے ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھا گویا اس وعدے پر مبارک دے رہے ہوں۔۔۔

ماضی یاد آتے ہی وہ مسکرا دیا." یہی تو وعدہ کیا تھا تم لوگوں نے.. پھر اب تم میں سے کوئی بھی کیسے کمزور پڑ سکتا ہے..."ایسی سب باتیں سوچتے ہی وہ نیند کی وادی میں اتر چکا تھا...............

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بسمہ کے سکول میں بچوں کے پیپرز چل رہے تھے. آج صرف ایک سیکشن کا ہی پیپر تھا، اس لئے باقی سارا سٹاف چھٹی پر تھا صرف بسمہ اور اس کی ایک گولیگ ہی آن ڈیوٹی تھیں. بچوں کو ایک کمرے میں بیٹھا کر وہ پیپر شروع کروا چکی تھی۔

...............

گھنے جنگل میں ہرسو اندھیرا تھا۔ جدھر نظر پڑتی بس گھنا جنگل ہی دیکھائی پڑتا تھا۔اسی دوران ایک جگہ سے روشنی اندھیرے کو چیرتے ہوئے داخل ہونے لگی جیسے رات جھٹ گئی ہو اور سورج نے اپنا کام سنبھال لیا ہو۔ روشنی کے اندر داخل ہوتے ہی اس کی نظر پاس بہتی نہر پر پڑی، وہ حیران ہوگیا اس کا پانی اس قدر کیسے شفاف ہوسکتا تھا۔ ابھی وہ اسی کشمکش میں تھا کہ اسے نہر کے دوسرے کنارے کوئی کھڑا نظر آیا،وہ کوئی عورت تھی جو سفید لباس میں تھی ،سفید لباس بھی ایسا کہ گو ہاتھ لگانے سے میلا ہوجائے۔وہ کسی ٹرانس میں چلتا ہوا اس کی جانب بڑھ رہا تھا، جیسے ہی اس نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے اور وہ پلٹی تو ہاتھ رکھنے والا حیران رہ گیا،وہ تو اس چہرے سے واقف تھا ۔

"تم.. تم یہاں کیا کر رہی ہو.. اور تمہیں تو سفید رنگ سے خوف آتا تھا نا پھر کیوں پہنا ہوا ہے اسے.."

"میرا گھر یہی تو ہے.. نہیں یہ سفید رنگ تو بہت پیارا ہے تم نے ہی تو دیا تھا..تمہاری طرف سے آخری تحفہ.."

"میں تمہیں ایسا تحفہ کیوں دوں گا بھلا.."

"کیونکہ مجھے کوئی اور رنگ پہننے کی اجازت جو نہیں تھی.. باقی رنگ اس فانی دنیا کے جو تھے.. "

وہ نیند سے اچانک بیدار ہوا ،اس نے پیشانی کو چھوا تو وہ پسینے سے شرابور تھی۔وہ جگہ.. وہ اداسی.. و.. وہ لڑکی۔لڑکی کا خیال آتے ہی وہ فوراً اپنے بیڈ سے اترا اور چابی اٹھا کر باہر کی جانب بھاگا۔اس وقت اس کا دل کررہا تھا کے وہ جلدی سے بسمہ کے پاس پہنچ جائے.. ایک بار اس کو اپنے سامنے دیکھ لے.. وہ ڈرائیو کرتے ہوئے یہی سب سوچ رہا تھا کہ اسی اثنا میں اس کا موبائل بجنے لگا،روشن سکرین پر نظر پڑی تو سامنے بسمہ کا نمبر جگمگا رہا تھا اس نے فوراً کال اٹھا ل۔

"ہیلو بسمہ تم ٹھیک تو ہو نا.."

"ہاں میں ٹھیک ہوں.. بس وہ مجھے لگا میری رات والی باتوں سے تم دکھی نا ہو جبھی فون کرلیا."

"نہیں.. میں ٹھیک ہوں.. تم بتاؤ گھر پر ہو.."

"نہیں سکول میں ہوں.."

"ٹھیک ہے میں راستے میں ہی ہوں.."

"اور اگر تمہیں دیر ہوگئی تو.."

"تم انتظار کرلینا.. "

" اور اگر وقت نا ہوا.. "ہنان کی اس کے سوالوں سے عجیب سی کیفیت ہونے لگی تو اس نے اللہ حافظ کہہ کر کال کاٹ دی۔

..............

وہ اور اس کی کولیگ کلاس میں ٹہلتے ہوئے بچوں کی نگرانی کر رہی تھیں۔

"بی بی جی۔۔۔" اس کی پھولتی سانس اس بات کی شاہد تھی کہ وہ بھاگتے ہوئے آیا ہے۔

"بشیر چچا۔۔سب ٹھیک ہے نا۔۔" وہ آہستہ سے چلتے ہوئے ان کے پاس آئی۔ بشیر چچا کہ چہرے سے گھبراہٹ اور پریشانی واضح ہوری تھی۔ وہ ان کا چہرہ دیکھ کر سمجھ گئی تھی کہ کوئی پریشانی والی بات ہے، اس لئے انہیں کلاس روم سے لئے باہر اگئی۔

"کیا ہوا ہے چچا۔۔آپ اتنا پریشان کیوں لگ رہے ہیں ۔۔"

"بی بی وہ آرہے ہیں۔۔وہ سب ختم کردیں گے۔۔"

"چچا کون آرہا ہے ۔۔اور کیا ختم کردیں گے۔۔"

"بی بی وہ ۔۔انہوں نے حکم دیا ہے۔۔و۔۔انہوں نے اپنے خاص ملازم کو حکم دیا ہے کہ وہ فوراََ اپنے بندوں کو لے جاکر یہ سب ختم کردے۔۔آپ کو ختم کردے۔۔اور۔۔اور بی بی جی وہ کہہ رہے تھے کہ آپ کے ساتھ وہ بچوں کو بھی مار دیں ۔ تاکہ آئندہ کوئی حکم عدولی نہ کرسکے۔۔" ان کی آواز کانپ رہی تھی۔

بشیر گائوں کے ملک کے پاس کام کرتا تھا۔ وہی ملک جو بسمہ کا سکول بند کروانے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا چکا تھا۔ بشیر نے جیسے ہی اس کی باتیں سنی تو وہ بسمہ کو بتانے پہنچ گیا۔ وہ اپنے ملک کے وفاداروں کی مدد کرنا چاہتا تھا، آخر کو ایک پاکستانی تھے وہ کیسے اپنے ملک کے دشمنوں کے ہاتھوں اپنے ملک کا مستقبل برباد ہوتے دیکھ سکتے تھے۔

"بی بی جی آپ یہاں سے چلی جائیں۔۔ان بچوں کو ان کی حیوانیت سے بچا لیں۔۔" وہ کافی گھبرائے ہوئے تھے جبھی ان کی آواز سے لڑکھراہٹ واضح ہورہی تھی۔

"چچا ٹھیک ہے، آپ جائیں اور آپ نے مجھے کچھ نہیں بتایا۔۔"

بشیر چچا کچھ نا بولے تو اس نے پھر سے دہرایا۔

"ٹھیک ہے نا چچا آپ نے کچھ نہیں سنا۔۔،جائیں اب اس سے پہلے کہ وہ سب یہاں آجائیں۔۔"

"بی بی۔۔م۔۔"

"چچا جائیں۔۔" وہ بضد تھی۔ بشیر چچا اسے حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے چل دئے تو اس نے پیچھے سے انہیں پکارا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشیر چچا کے انکشافات نے اس پر بم پھوڑا تھا۔ کوئی اور موقع ہوتا،اور کوئی لڑکی ہوتی تو وہ وہیں پر ڈہہ جاتی۔ مگر وہ بسمہ تھی کیپٹن ہنان کی منکوحہ۔ جس نے ہمیشہ ہاتھ پائوں پھلانے کے بجائے دماغ کو چلانا سیکھا تھا۔ وہ بشیر چچا کے جاتے ہی کلاس میں آئی اور آتے ہی اپنی کولیگ کے پاس آئی۔

"دیکھو نجمہ پینک نہیں کرنا اور میری بات کو غور سے سننا۔۔"

نجمہ نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

"تمہیں ابھی بچوں کوپیچھے والی سائیڈ سے لے کر یہاں سے نکلنا ہوگا۔۔اور یہاں سے نکلتے ہی بچوں کو بازار میں پھیلا دینا اور پھر وہ وہیں سے اپنے گھر چلے جائیں گے۔۔"

"مگر ایسا کیوں۔۔بسمہ سب ٹھیک تو ہے نا۔۔" نجمہ اس کی باتیں سن کر گھبرا گئی تھی۔

"وقت آنے پر تمہیں سب پتا چل جائے گا، ابھی اتنا وقت نہیں ہے۔ جلدی سے دروازے کی کنڈی لگائو۔"

نجمہ اس کی ہدایت پر کنڈی لگانے بڑھ گئی تو وہ بچوں کی طرف متوجہ ہوئی۔ اس نے بچوں کو سارے حالات سے آگاہ کرنے کے بعد اس نے اور نجمہ نے بچوں کو کھڑکی سے گیلری میں پھیلانگنے کو کہا۔ مگر پھر ان ننھے مستقبل کے معماروں سے آخری بار بات کرنے کو دل چاہا تو انہیں روک لیا..

"میرے ننھے معصوم پھولوں اپنی بسمہ آپی سے ایک وعدہ کرو گے..؟"

سب بچوں نے یک زبان ہوکر ہامی بھری ۔

"وعدہ کرو کہ کبھی نہیں بھولو گے تم کون ہو.. کبھی نہیں بھولو گے کہ تم سب سے پہلے ایک مسلمان ہو.. وعدہ کرو کہ کبھی بھی وقت پڑنے پر اپنے ملک کو پیٹھ نہیں دکھاؤں گے.. اس خوف کی فضا سے آزاد ہوکر اڑو گے اس عزم کے ساتھ کہ ایک دن تم یہ سارے اندھیرے دور کردو گے..

کبھی تعداد کے خوف سے ہمت نہیں ہارو گے.. اپنے حصے کا دیا ضرور جلاؤ گے.. "

اس کی آواز رندھی ہوئ محسوس ہورہی تھی۔بظاہر تو پرسکون تھی مگر دل چاہتا تھا کہ وہ جینے کی خواہش کرے۔

" یاد رکھو گے نا اپنی بسمہ آپی کی باتوں کو.. اپنی بسمہ آپی کو؟ "

آخری سوال اس نے کچھ توقف کے بعد کیا..

" ہم کبھی نہیں بھولیں گے بسمہ آپی کو.. " ایک ننھی کلی نے آگے آکر اپنی باہیں کھولیں تو بسمہ نے اسے اپنی باہوں میں لے لیا.. آنسو کی لڑی پلکیں بھگوتی اس ننھی کلی کے بالوں میں جذب ہوگئی۔

جب وہ سب گیلری میں اتر گئے تو بسمہ اور نجمہ نے روم میں پڑا چھوٹا ٹیبل اٹھا کر گیلری میں اتارا۔ نجمہ نے میز دیوار کے ساتھ لگائی اور بچوں کو جلدی جلدی دوسری سائیڈ پر کودنے کی ہدایت دی۔

سبھی بچے دیوار پھیلانگ چکے تھے اب نجمہ کی باری تھی۔

"بسمہ میں نہیں جانتی تم یہ سب کس وجہ سے کرنے کو کہہ رہی ہو۔۔تم بھی ہمارے۔۔"

بسمہ نے اس کی بات کو بیچ میں ٹوکا۔

"بھروسہ رکھو یہی بہتر ہے۔ ۔بس پلیز تم لوگ کبھی اس خواب کو دماغی فطور سمجھ کر بھول نا جانا۔۔اس خواب کو تعبیر ضرور دینا جو ہم نے ساتھ مل کر دیکھا تھا۔۔"

کہنے کے بعد وہ نجمہ کے گلے ملی۔ ناچاہتے ہوئے بھی بسمہ کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی۔ دونوں نے کار کے ٹائروں کی چرچراہٹ سنی تھی۔۔جسم میں خوف کی لہر دوڑی ۔

"چلو۔۔جلدی وقت نہیں ہے۔۔" اس نے کہتے ساتھ نجمہ کو ہاتھ سے کھڑکی کی جانب دھکیلا۔ بس پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ دیوار پھیلانگ گئی تھی۔ بسمہ نے آنکھیں بند کرتے نمکین پانی کو آزاد کردیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دھڑم سے دروازہ کھلا اور تین آدمی بندوقیں تھامے کمرے میں داخل ہوئے ۔ کمرے کو خالی پاکر ان کی تیوریاں چڑھیں۔

"یہاں پر تو کوئی نہیں ہے۔۔کدھر ہیں بچے۔۔کدھر چھپایا ہے تم نے ان نامرادوں کی اولادوں کو۔۔" ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر بسمہ سے پوچھا۔

"بچے۔۔بچے آج نہیں آئے ان کی چھٹی تھی آج۔۔" اپنے ڈر کو اندر سموئے اس نے کمال تحمل اور بہادری کا مظاہرہ دکھایا۔

پھر ان تینوں نے ایک دوسرے کو آنکھوں آنکھوں میں اشارہ کیا جس کے بعد دو باہر چلے گئے اور تیسرے نے اپنی بندوق سیدھی کرتے بسمہ پر فائر کھول دیا۔ آنکھوں میں ڈھیروں خواب لئے،اپنے وطن کیلئے ہزاروں جذبے لئے ڈھیروں ادھوری خواہشات لئے وہ زمین پر گرگئی۔ آس پاس کوئی نظر نہیں آرہا تھا جس کو وہ پکار پاتی محض اس ذات کے سوا جس کے روبرو وہ حاضری دینے جارہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنے دل کی بے چینی کے سبب وہ کار سے اترتا بھاگتے ہوئے وہ سکول کے اندر کی جانب بڑھا۔ اپنی جان عزیز اسے پہلے کمرے میں نظر آگئی تھی۔ اس پر نظر پڑتے ہی سانسیں تھمیں۔ ہر چیز ٹہر گئی ، ہر شہ نے خاموشی کی چادر اوڑھ لی تھی۔ سامنے وہ اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھے ، اپنے ہی خون میں ڈوبی زمین پر پڑی تھی۔

میرے چارہ گر کو نوید ہو ، صف دشمناں کو خبر کرو

وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا

کرو کج جبیں سر کفن میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو

کہ غرور عشق کا بانک پن پس مرگ ہم نے بھلا دیا

فیض احمد فیض

حوش آنے پر وہ بھاگتے ہوئے اس کی جانب بھاگا ۔

"ب۔۔بسمہ۔۔" کہتے ساتھ اس نے نفی میں سر ہلایا۔ اس سے کہنا چاہتا تھا کہ ابھی نہیں۔۔اتنی جلدی جدائی کا تحفہ مت دینا مگر یہ کیا اس سے تو الفاظ ادا نہیں ہورہے تھے۔ وہ کتنی کوشش کے باوجود بھی بول کیوں نہیں پارہا تھا۔ اس نے اس کا سر اپنی گود میں رکھتے ہوئے آہستہ سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا۔ اپنے محرم کا۔۔اپنے خوابوں کے ہمسفر کا لمس محسوس کرتے اس نے آنکھیں کھولیں اور تکلیف کے باعث بھی مسکرانے کی کوشش کی۔

"پ۔۔پلیز۔۔نہیں۔۔" ہنان کے آنسو بسمہ کے چہرے میں جزب ہورہے تھے۔ دونوں کیلئے مشکل تھا ایک دوجے کو یوں دیکھنا مگر چاہتے ہوئے بھی اس وقت نا تو وہ ایک دوسرے سے منہ پھیر سکتے تھے اور نا ہی آنکھیں بند کر سکتے تھے، ڈر تھا دوبارا رجوع کرنے پر ایک دوسرے کو کھو دینے کا۔

"تم۔۔چ۔۔چاہتے تھے نا ہم دونوں کو ش۔۔شہادت ملے۔۔" اس کی دھڑکن دھیمی پڑنے لگی تھی۔

"ن۔۔نہیں۔۔اب۔۔ابھی۔۔نہیں۔۔یار پلیز۔۔ آنکھیں بند مت کرنا" وہ بے بسی سے روتے ہوئے فریاد کررہا تھا۔

"آ۔۔آنکھیں بند نہیں ک۔۔ کر۔۔کروں گی تو تم۔۔تمہاری خا۔خواہش کیسے پوری ہوگی۔۔ک۔۔کیپ۔۔کیپٹ۔۔" تکلیف کے سبب وہ پورا لفظ ادا نہیں کر پائی۔

"م۔۔مجھے اچھے سے رخصت نہیں کریں گے۔۔" بسمہ نے حسرت بھری نگاہ سے دیکھا۔ وہ زخمی مسکراہٹ کے ساتھ جھکا اور اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ دئے۔۔آنسو متواتر بہہ رہے تھے۔ جب اٹھا اور بسمہ کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں بند ہوچکی تھیں۔۔وہ ابدی دنیا کا سفر شروع کرچکی تھی۔

فراق یار کا وقت قریب تھا۔۔۔

میں نے ہاتھ تھاما روکنے کیلئے۔۔۔۔

اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔۔۔

آنسو چھلک گئے۔۔۔گویا کہہ رہا ہو۔۔۔

بھلا شوق سے بھی کوئی بچھڑتا ہے۔۔۔

یہ تو سب مقدر کی باتیں ہوتی ہیں۔۔۔

عزہ اقبال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بسمہ کو اس سے بچھڑے دو ہفتے بیت چکے تھے۔

چار دن ہوچکے تھے اس کو اس کی قبر پر حاضری دیتے ہوئے۔ کم سے کم جب تک محبوب کے شہر میں دانا پانی تھا تب تک تو اس کے در پر حاضری دینا فرض تھا نا۔وہ فجر کی نماز پڑھنے کے بعد سیدھا اس کی قبر پر آتا، فاتحہ کوانی کرتا،اس کے جواب دینے کے انتظار میں یونہی کچھ دیر بیٹھا رہتا اور پھر بسمہ کی باتیں یاد آنے پر خود و مضبوط کرتے ہوئے وہاں سے اٹھ جاتا۔۔

آج بھی وہ اس کی طرف سے کسی پیغام کی امید لئے بیٹھا تھا جبھی کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ وہ ویسے ہی بیٹھا رہا تو وہ بھی اس کے پاس بیٹھ گئے، فاتحہ پڑھی اور پھر اپنی جیب سے کچھ نکالتے ہوئے اس کی جانب بڑھایا۔

وہ اس بریسلٹ کو ان کے پاس دیکھ کر ٹھٹکا۔۔

"یہ مجھے بسمہ بیٹی نے دیا تھا، آپ کو دینے کیلئے۔۔"

اس کی آنکھوں سے آنسو کا قطرہ گرا۔۔

"اور کہا تھا کہ وہ تب تک زندہ ہیں جب تک آپ کے دل میں ہیں۔۔" بسمہ کا پیغام دینے کے بعد وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور ہنان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے حوصلہ دیتے ہوئے چل دئے، اور وہ یونہی اس بریسلٹ کو تکتا رہا۔۔

وہ آنکھیں جن میں دنیا بھر کی خواہشیں تھیں۔۔۔

ان میں آج اک خالی پن ہے۔۔۔۔

وہ آنکھیں جو کبھی محفلوں کی چمک تھیں۔۔۔

آج ویرانیوں کی عکاس ہیں۔۔۔۔

وہ آنکھیں جن میں کل تک تم تھے۔۔۔

ان میں آج بھی تم ہو۔۔۔۔

عزہ اقبال

"وہ بچھڑی نہیں ہے.. ہمیشہ میرے ساتھ ہے میرے دل میں.. اس کی خوشبو میری روح میں سما چکی ہے.. بس اس کا وجود سامنے نہیں ہے مگر وہ زندہ ہے میرے دل میں.. جب تک میں ہوں بسمہ زندہ ہے.."

اسی طرح کے احساسات وہ بسمہ کی ڈائری میں روز اتارتا تھا۔اپنے احساسات قلمبند کرنے کے ساتھ وہ اس کی لکھی ہوئی تحریریں بھی پڑھتا تھا۔

"تم اتنی ساری ڈائیریز کا آخر کرتی کیا ہو ۔۔"وہ جب بھی اسے کسی بک شاپ پر لے کر جاتی تو وہ اسے یونہی اتنی ساری ڈائیریز خریدتے دیکھ کر یہی سوال پوچھتا۔

"ظاہری بات ہے ان پر لکھتی ہوں۔۔" وہ ایسے ہی ڈائیریز کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ اسے بھی جواب دیتی رہتی۔

"اور جب یہ بھر جاتی ہیں تو سوچا ہے ان کا کیا کرنا ہے۔۔'

"سوچنا کیا ہے میں ان کو سنبھال کر رکھتی ہوں ۔۔'

"کب تک۔۔کیا ساری عمر یونہی ان کو سنبھال کر رکھو گی۔۔"

"کیپٹن صاحب یہ میں اپنے لئے تھوڑی آپ کیلئے سنبھال کر رکھتی ہوں۔۔"

"میرے لئے۔۔" وہ حیران ہوا۔۔

"ہاں نا جب میں آپ کے پاس نہیں ہوں گی تو آپ ان کو پڑھ کرمجھے محسوس کیا کریں گے نا۔۔۔۔"

وہ اکثر ایسی ہی باتیں کر جایا کرتی تھی، جب وہ اس سے سوال کرتا کہ آخر وہ کیا سوچ کر ایسی فضول گوئی کرتی ہے تو وہ ہر بار کی طرح کہتی ۔۔"بس دل نے کہا تھا یہ کہنے کو تو کہہ دیا۔۔۔" اور وہ اس کی باتوں پر خاموش رہ جاتا۔ اب جب وہ وہی سب کام کر رہا تھا تو اسے احساس ہورہا تھا کہ وہ یہ سب کیوں کہتی تھی۔

ہر وہ کام جو بسمہ کو کرنا پسند تھا وہ کوشش کرتا تھا وہی سب کرنے کی.. زخمی ہونے کے باوجود ہار نہیں مانی تھی۔بسمہ اس کا دل تھی.. اس کی خواہش تھی مگر ان سب سے پہلے اس پر اس کے وطن کا شہداء کا قرض تھا جس کو وہ اس دکھ میں بھی نہیں بھولا تھا.. کیسے بھول سکتا تھا اس کے خمیر میں احسان فراموشی نہیں تھی۔بھروسہ نہ ہونے پر بھی اس نے ایک بہترین شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے بسمہ کے قتل کے سلسلے میں کورٹ سے رجوع کیا تھا،جبکہ اس کے اختیار میں تھا کہ وہ اسے دہشت گردی اور خوف و حراس پھیلانے کے جرم میں اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر اس کی سانسیں چھین لیتا.. وہ اک شہری ہونے کے ساتھ ساتھ آرمڈ فورسز کا حصہ تھا، وہ لوگوں کو بتانا چاہتا تھا کے ہماری افواج کبھی ذیادتی نہیں کرتیں... بسمہ کا سکول بند نہیں ہوا تھا،کسی نے ڈر کر ہار نہیں مانی تھی.. مسلمان کو موت سے ڈرنا کہاں زیب دیتا تھا۔

اس نے ایک نئے عزم کے ساتھ اپنے بوٹ پہنے، جیکٹ پہنی اور اہنے ہتھیاروں کو ان کی جگہ پر رکھا تھا اور اپنی ٹیم کے ساتھ نئے مشن پر روانہ ہوا تھا۔

جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے

رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا

asalam o alaikum ,

pyare se ajeeb logo :p 

ye ik short story hai jo main ne thora pehle last year me likhi ti.

ye bisma ki story ti jin ka ishq amar hogeya hamesha kliye hanan k dil me.ab IN SHA ALLAH jld hi (pata nahi kb) hanan ki story bhi ayegi.

umeed hai ap is ko psnd krain ge jesa k meri ongoing story ko kar rahe hain

لازمی تو نہیں ہر عشق کو جسموں کا ساتھ نصیب ہو۔۔؟ کچھ محبتیں اتنی خالص ہوتی ہیں  کہ انہیں اگلے جہان میں امر ہونا ہوتا ہے۔ ایسی محبتیں جو غرض سے پاک ہوتی ہیں۔جو  قربتوں سے زیادہ روح میں اترنے  جانے پر یقین رکھتی ہیں۔

جن محبتوں کو ہمیشہ کیلئے خالص اور برقرار رکھنا ہوتا ہے انہیں قدرت ایسے سنبھال لیتی ہے۔کسی ایک کے دل میں کسی  چنگاری کی مانند ہمیشہ سلگنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جس کا سلگنا اس محبت کو کبھی مانند نہیں پڑنے دیتا۔

aur mujhe ye baat rooh e ishq k raahi ko parh kar smjh ai..Hayam aur Ayedaan ki story ...

Continue Reading

You'll Also Like

282K 6K 33
WATTPAD BOOKS EDITION You do magic once, and it sticks to you like glitter glue... When Johnny and his best friend, Alison, pass their summer holid...