"ایسے کیسے چھوڑ گئے تمہارے ابو ہمیں۔۔ ابھی تو ہم نے زندگی کی خوشیاں دیکھنی تھیں۔۔ اب تو حالات بہتر ہونے جا رہے تھے جب وہ ہمیں یوں تنہا کر گئے۔۔ "
وہ ایک بار پھر ہچکیوں کے درمیان بول رہی تھیں جبکہ عمر بالکل خاموش کھڑا تھا۔۔ اس کہ پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔۔ کوئی تسلی کوئی دلیل کچھ بھی نہیں تھا اس کہ پاس کہنے کو۔۔ اسے بس چپ سی لگ گئی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی وفات کو دو دن بیت بھی چکے تھے۔۔ عمر کی والدہ عدت میں بیٹھیں تھیں جبکہ عمر اب تک چپ سادھے بیٹھا تھا۔۔ کوئی اس سے تعزیت کرتا اسے تسلی دیتا وہ کچھ نہیں بول رہا تھا۔۔ نا وہ رو رہا تھا نا ماتم کر رہا تھا بس ایک چپ سادھ کر بیٹھا تھا۔۔ مصطفی اسے دیکھ دیکھ کر پریشان ہورہا تھا۔۔ وہ چاہتا تھا عمر کچھ بولے کوئی بات کرے بے شک رو لے لیکن وہ بالکل خاموش تھا۔۔ مصطفی نے ایک دو بار اس سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن اس کی خاموشی دیکھ کر وہ بھی خاموش ہوگیا۔۔
آہستہ آہستہ گھر پر آئے تعزیت کرنے والے سب مہمان رخصت ہوگئے۔۔ عمر نے ن دوبارہ سے یونیورسٹی اور آفس جوائن کرلی۔۔ زندگی پھر سے معمول پر آگئی سب اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے لیکن عمر کی زندگی میں ایک خلا آ گیا تھا۔۔ وہ اب کی بار مکمل اکیلا ہوگیا تھا۔۔ اس کا باپ۔۔ اس کا سہارا ۔۔ اس کہ جینے کی وجہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے تو اس کہ پاس اب کچھ نہیں بچا تھا۔۔ وہ اپنی ماں کو دیکھتا تو دل اور دکھی ہوتا تھا۔۔ وہ بھی اسی کی طرح بالکل خاموش ہوگئیں تھیں۔۔ کبھی چھپکے سے رو لیتیں لیکن عمر کے سامنے نہیں روتی تھیں لیکن عمر ان کی آنکھوں کی سوجن اور بوڑھی آنکھوں میں موجود قرب اچھے سے محسوس کرسکتا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصطفی سونے کے لیے لیٹ ہی رہا تھا جب بریرہ کی آواز آئی۔۔
"ویسے انسان میں تھوڑی سی شرم ہونی چاہیے۔۔ عمر تمہارا اتنا قریبی دوست ہے اور اس کہ مشکل وقت میں تم بجائے اس کا ساتھ دینے کہ یوں منہ پھلا کر بیٹھے ہوئے ہو۔۔ "
مصطفی اور عمر کے درمیان کھنچاؤ سب ہی محسوس کر رکھ تھے۔۔ بریرہ بہت دنوں سے مصطفی کا عمر کی طرف رویہ نوٹ کر رہی تھی اس لیے آج مصطفی سے بات کرنے کا سوچا۔۔ بڑے عرصے بعد وہ مصطفی سے خود مخاطب ہوئی تھی۔۔
"تمہیں اصل بات کا نہیں معمول اس لیے اس معاملے سے دور رہو۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولا۔۔۔ عمر کی باتیں یاد کر کہ غصے کی شدید لہر اس کہ اندر دوڑ گئی تھی۔۔
"ایسی کیا بات ہوگئی ہے جو تم اس موقع پر بھی ایسا رویہ رکھے ہوئے ہو؟ "
بریرہ کے پوچھنے پر مصطفی نے ایک لمحے کو بریرہ کی طرف دیکھا۔۔ وہ واقعی یہ بات کسی سے شئیر کرنا چاہتا تھا۔۔ وہ خود کو نہیں پرکھ پا رہا تھا کہ وہ سہی ہے یا غلط۔۔ اسے کوئی چاہیے تھا جو اسے بتاتا کہ وہ کہاں سہی ہے اور کہاں غلط۔۔۔
"میری اس سے کچھ لڑائی ہوگئی تھی۔۔ "
مصطفی نے بات شروع کی۔۔
"وجہ؟ "
"وہ زینب کو پسند کرتا ہے۔۔۔ جس دن میری تم سے لڑائی ہوئی تھی میں عمر کہ گھر چلا گیا تھا اور وہاں سب سنا میں نے۔۔ وہ آنٹی سے زینب کے بارے میں بات کر رہا تھا۔۔ "
مصطفی اسے ساری بات بتاتا گیا۔۔
"تو اس میں کیا غلط ہے مصطفی؟ عمر اچھا لڑکا ہے ۔۔ اس میں لڑنے والی کیا بات ہے۔۔ "
بریرہ ساری بات سننے کے بعد بولی
"تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟ تمہیں یہ سب سہی لگ رہا ہے؟ میرا دوست ہوتے ہوئے وہ میری بہن پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ "
بریرہ کی بات پر مصطفی غصے سے بولا
"دماغ میرا نہیں تمہارا خراب ہے۔۔ اس میں نظر رکھنے والی بات کہاں سے آگئی؟ عمر سے زیادہ تم اس کو جانتے ہو مصطفی اور ہم سب اس بات کہ گواہ ہیں کہ اس نے آج تک نظر اٹھا کر زینب کی طرف نہیں دیکھا۔۔ تمہارا دماغ اتنا خراب کیوں ہے ہر چیز کو نیگیٹو کیوں لے جاتے ہو؟ "
وہ اس کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے بولی
"لیکن مجھے اچھا نہیں لگا کہ وہ یوں میری بہن کا ذکر کر رہا تھا۔۔ "
"تو وہ کون سا غیر مناسب الفاظ میں اس کا ذکر کع رہا تھا یا باہر کسی محفل میں اس کی بات کر رہا تھا۔۔ گھر کی چار دیواری میں اپنی ماں سے ہی تو کہہ رہا تھا۔۔۔ "
بریرہ کے بولنے پر عمر کے الفاظ یاد کرتے ہوئے وہ خاموش ہوگیا۔۔۔
"ابھی بھی موقع ہے تمہارے پاس مصطفی۔۔ عمر سے بات کرو اور آپس کے سارے معاملات درست کرو۔۔اسے تمہاری ضرورت ہے۔۔ "
اسے خاموش دیکھ کر وہ دوبارہ بولی
"نہیں ہو سکتے معاملات درست۔۔ مجھ سے ایک غلطی ہو گئی ہے۔۔ "
وہ نظریں چراتے ہوئے بولا
"اب کیا کر دیا تم نے؟
"میں نے غصے میں عمر کو تھپڑ مار دیا تھا۔۔ "
وہ آہستگی سے بولا
"واٹ؟ تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟ غصے میں تم اتنے پاگل ہو گئے تھے۔۔ "
وہ غصے سے بولی
"تو کیا کروں اب۔۔آ گیا تھا غصہ نہیں ہوا برداشت مجھ سے اٹھ گیا ہاتھ۔۔ "
وہ جھنجھلاتے ہوئے بولا
"واہ ۔۔۔ تمہارے لیے یہ معمولی سی بات ہے۔۔ بہت اچھے۔۔ تمہیں پتا ہے مصطفی تمہارے آدھے معاملات تمہارے اس غصے کی وجہ سے خراب ہیں۔۔ "
وہ اسے شرمندہ کرتے ہوئے بولی اور مڑ کر جانے لگی۔۔
"میں جانتا ہوں اور اسی لیے تو اب اپنے سارے معاملات درست کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ "
مصطفی اسے روکتے ہوئے بولا تو وہ خاموشی سے رک گئی۔۔
"دیکھو بریرہ تم ایک بار ہمارے بارے میں بھی تسلی سے میری کوئی بات سن لو۔۔ "
وہ منت کرتے ہوئے بولا
"ہمارے تعلق میں اب میں کہنے سننے کو کچھ نہیں بچا۔۔ اب بس گزارا ہی ہے جو ہم کر رہے ہیں۔۔ "
سنجیدگی سے کہتی وہ اپنا ہاتھ چھڑوا کر چلی گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سانول یار 😍❤. (COMPLETE)Wo Geschichten leben. Entdecke jetzt