Part 1

1.9K 102 67
                                    

بسم الله الرحمن الرحيم

اس کی آنکھ فجر کی اذان پر کھلی تھی۔ کمرا اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔رات کو تین بجے سونے کے بعد بھی نماز کے لیے اٹھ گیا تھا۔ کیسے نا اٹھتا ؟ دُنیا کے سارے کام ایک طرف اور اس کا اپنے رب کے ساتھ تعلق ایک طرف۔ نیند سے بھری آنکھوں کو رگڑتے ہوئے وہ بیڈ سے اٹھا۔ ساتھ پڑا ہوا ٹیبل لیمپ آن کیا ، وضو کر کے نماز پڑھی۔ آخر میں جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو دل خالی کر دیا۔

” یا اللہ ، میری دونوں بہنوں کی شادی ہو گئی بھائی کی شادی کچھ دنوں میں ہے ، میرا نمبر کب آئے گا ؟ پتہ نہیں میری شریک حیات کیسے میرے بغیر اپنی حیات گزار رہی ہوگی۔“ وہ دعا مانگ ہی رہا تھا کے کسی نے پیچھے سے آواز لگائی۔
”حمين ..... حمین ..... حم“سالار اُسے دعا مانگتے دیکھ بیچ میں ہی رک گیا۔ اب وہ اس کی دعا ختم ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔
”جی بابا“ وہ نماز پڑھ چکا تھا اور جائے نماز طے کر رہا تھا۔
”کچھ خاص نہیں بس یہی کہنے آیا تھا کے آج جبریل نے اپنی شادی کا سوٹ لینے جانا ہے تو اس کے ساتھ چلے جانا۔“
”اوکے ! نو ایشو“ وہ سالار کے سامنے پڑے کاؤچ پر بیٹھ چکا تھا۔
”مجھے تمہاری ممی کو شاپنگ پے لے کے جانا ہے۔“
”اچھے سے کپڑے دلائیے گا اپنی سوئیٹ ہارٹ کو۔“ وہ باپ کو چھیٹر رہا تھا۔ سالار نے حیرت بھری آنکھوں سے اُسے دیکھا، پھر اس کی شیطانی مسکراہٹ دیکھ کر وہ بھی ہنس دیا۔
کبھی کبھی سالار کو حمین سے بات کرتے ہوئے ایسا لگتا تھا کہ وہ آئینے میں اپنے عکس سے بات کر رہا ہو۔ سکندر عثمان صحیح کہا کرتے تھے وہ واقعی ہی میں باپ کی کاپی تھا۔
”میں جاتا ہوں تیار ہو کے ناشتہ کرنے آجانا۔“ یہ کہہ کر وہ حمین کے کمرے سے چلا گیا۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھی سکندر فیملی جبریل کی شادی کو ٹاپک بنائے جو کچھ دنوں میں تھی ڈسکس کر رہے تھے۔
”ممی آپ کتنا کام کرتی ہیں۔“حمین نے امامہ کو بولا۔
”ہاں تو اگر میں نہیں کروں گی تو تم سب بھوکے بیٹھے رہو گے۔“
”اسی لیے تو کہتا ہوں کے بہو لے آئیں۔“حمین نے اُسے حل بتایا۔
”الحمد للہ! میری بہو کچھ دنوں میں آنے والی ہے۔“
”ایک آنے والی ہے دوسری کو لانے کا بھی کچھ سوچیں۔“ حمین کی اس بات نے ٹیبل پر بیٹھے جبریل اور سالار کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا۔ سب کی آنکھوں میں حیرت تھی۔
”ہماری بہو کی فکر تو ہمارے سے زیادہ تمہیں ہے۔“
اس بار امامہ کے بجائے سالار نے جواب دیا۔
”اب خود دیکھیں بابا کتنی غلط بات ہے کہ وہ میرے سسرال میں بیٹھی ہے اور میں اس کے سسرال میں۔“حمین کی اس بات نے سب کو سہنے پر مجبور کر دیا۔
”حمین چپ کر کے ناشتہ کر لو۔“ اس بار جبریل نے بھی خاموشی توڑ دی۔
”اوکے“ اس نے اپنے کندھے اوچکاتے ہوئے جواب دیا۔
”مجھے خود ہی کچھ کرنا پڑے گا۔“ وہ آہستہ سے منہ میں بڑبڑایا لیکن ساتھ بیٹھے سالار نے اس کی سرگوشی سن لی۔ اس نے سالار کی نظریں اپنے چہرے پر محسوس کیں سر اٹھا کر دیکھا تو وہ واقعی میں اسے دیکھ رہا تھا۔ حمین نے آنکھیں چراتے ہوئے دوبارہ نظریں اپنی پلیٹ پر جمع ہیں۔

𝐐𝐢𝐬𝐬𝐚-𝐞-𝐒𝐢𝐤𝐚𝐧𝐝𝐚𝐫 (Urdu)Where stories live. Discover now