باب دہم۔ تربیلہ جھیل سے پہلے

52 0 0
                                    

باب دہم ۔فسانہء آزاد​

تربیلاجھیل سے پہلے​

محمد خلیل الر حمٰن​

یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب تربیلا ڈیم ابھی بنا نہیں تھا۔پہاڑکی ترائی میں ایک گاﺅں تھا جس کا نام ستھانہ تھا۔تربیلا ڈیم بنا تو یہ علاقہ اسکی جھیل میں آگیااور منوں ٹنوں پانی میں ڈوب گیا۔ اباجان اپنے معمول کے تبلیغی دوروں میں اس علاقے کا چکر لگا یا کرتے تھے اور وہاں پر قیام کیا کرتے۔وہاں تک پہنچنے کا راستہ انتہائی دشوار گزار اورسنسان تھا۔ اس وادی کے ایک سرے پردریائے سندھ اپنی پر جوش لہروں کے ساتھ گزرتا تھا۔ ستھانہ تک پہنچنے کے لیے اس جگہ سے دریا کو عبور کرنا پڑتا تھا۔​

پاکستان بننے کے بعد ایک مرتبہ اباجان کی طبیعت نے انھیں بے چین کیا اور انھیں اپنے دوستوں کی یاد ستائی تو وہ بوریا بستر باندھ کر ایک مرتبہ پھر اس علاقے کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔سہ پہر کا وقت تھا جب اباجان کادریا تک پہنچنا ممکن ہوسکا۔سورج غروب ہونے میں ابھی کئی گھنٹے تھے اور اباجان سورج غروب ہونے سے پہلے اس سنسان علاقے سے نکل کر دریا عبور کرجانا چاہتے تھے۔​

ہر طرف سناٹا اور ہو کا عالم تھا۔نہ آدم نہ آدم زاد۔ اچانک اباجان نے دیکھا کہ کئی لمبے لمبے گرگٹ ان کی طرف بڑھتے چلے آرہے ہیں۔ ان گرگٹوں کی لمبائی کوئی تین تین فٹ تو ضرور تھی۔ ان گرگٹوں کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر اباجان کو خوف محسوس ہوا اور وہ ان سے بچنے کی تدبیر سوچ ہی رہے تھے کی وہ گرگٹ اباجان سے کچھ قدم دور ایک ٹیلے کے پیچھے غائب ہوگئے اور یوں اباجان کی جان میں جان آئی۔ یہ گرگٹ دراصل اس ویرانے میں ایک انسان کو دیکھ کر خود خوفزدہ ہوگئے تھے اور چھپنے کے لیے اپنے بلوں کی طرف لپک رہے تھے۔​

ابھی اباجان اس جان لیوا صورتحال سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ خوش قسمتی سے انھیں دریا پار کچھ افراد نظر آگئے ۔اباجان نے ان اشخاص کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے آوازیں دینی شروع کیں تو وہ چونک گئے اور پکار کرپشتو میں اباجان سے پوچھا۔​

” تم آدمی ہو یا جن ہو؟“​

”میںبالکل ایک آدمی ہی ہوں اور دریا کے اس پار آنا چاہتا ہوں۔“اباجان نے پشتو ہی میں جواب دیا۔​

دراصل اس ویرانے میں وہ لوگ ایک اجنبی کو دیکھ کر حیران رہ گئے تھے اور ابا جان کو یکے از جنات تصور کر رہے تھے۔خیر صاحب، انھوں نے ایک کشتی اباجان کے لیے بھیجی اور یوں اباجان دریا کے اُس پار اتر سکے۔اس طرح گو ان لوگوں نے دیکھ لیاکہ اباجان جن نہیں بلکہ ایک ان ہی جیسے انسان تھے، لیکن میں آج تک یہ فیصلہ نہیںکرپایا کہ ان لوگوں کا مشاہدہ درست تھا یا نہیں۔​

فسانہٗ آزادحيث تعيش القصص. اكتشف الآن