باب ہشتم۔ سوئے منزل چلے

38 0 0
                                    

باب ہشتم۔فسانہ آزاد​

سوئے منزل چلے​

محمد خلیل الر حمٰن​

(نوٹ: یہ باب وہ واحد داستان ہے جو ہم اباجان کی زندگی میں لکھ کر انھیں سنا چکے تھے۔ ان کی ڈانٹ اب بھی یاد ہے کہ” ابے! اپنے باپ کو اس قدر بڑھا چڑھا کر بیان کررہا ہے“۔ان کی وفات کے بعد اس میں ردو بدل کرنے کا دل نہ چاہا تو اسے من و عن ہی رہنے دیا۔)​

اباجان کو سرور چچا کی چھوٹی بیٹی کے امتحان میں اول آنے کی خبر سنائی تو وہ بہت خوش ہوئے۔ مسرور لہجے میں کہنے لگے۔​

© ” سرور کے دل میں بھی پڑھائی کا شوق میں نے ہی ڈالا۔ جیل میں جب وقت نہ گزرتا تو میں نے اپنی افتادِ طبع سے مجبور ہوکر ساتھیوں کو عربی پڑھانی شروع کردی، رفتہ رفتہ میرے گرد پندرہ بیس نوجوان طالب علم جمع ہوگئے اور روز عربی کے سبق لینے لگے۔ گردانیں طویل ہوتی چلی گئیں، اور یہ سلسلہ کئی مہینوں تک جاری رہا۔ دونوں چھوٹے یعنی سرور اور ہاشم بھی جیل میں میرے ساتھ تھے، لہٰذہ دونوں ہی شوق سے روزآنہ سبق لینے لگے۔“

یہ قصہ ہے سقوط ِ حیدرآباد کا اور اس کے بعد اباجان کے جیل کاٹنے اور نتیجے کے طور پر رہا ہوکر پاکستان پہنچنے کا۔ لیکن اباجان کے دیگر محیر العقل کارہائے نمایاں کی طرح یہ بھی حیرت انگیز واقعات سے پر ہے۔ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ یہ سچا واقعہ ہے یا کسی حیرت انگیز ناول کا کوئی دلچسپ باب، جس میں ہر صفحے پر نت نئے سنسنی خیز واقعات بھرے پڑے ہوں۔​

اباجان کے جیل پہنچنے اور وہاں پر انتہائی دلچسپ بیس ماہ گزارنے کا تذکرہ پھر کبھی بیان کروں گا۔ آج کا قصہ ان کے آزادی کا پروانہ ملنے کے بعد کے واقعات سے متعلق ہے۔ آزادی کا پروانہ ملتے ہی ضروری کپڑے اور ایک ایک کمبل قیدیوں میں بانٹے گئے، اباجان اور دونوں چھوٹے بھائیوں نے کمال ہوشیاری سے ایک ایک کمبل اور ہتھیالیا اور انھی کمبلوں نے نہ صرف راستے میں بلکہ اگلے کئی مہینوں تک ان کا ساتھ دیا اور انھیں ٹھٹھرتی ہوئی سردی سے محفوظ رکھا۔ تقریباً اٹھارہ بیس ساتھیوں کا یہ قافلہ حیدرآباد جیل سے نکلا اور ٹرین میں بیٹھ کر برار کی طرف روانہ ہوا۔ آکولا اسٹیشن پہنچ کر سب ساتھیوں نے اپنے اپنے سامان ِ سفر کو سمیٹ کر تینوں بھایﺅں کی مدد سے اسے پٹریوں کے پار ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم اور دوسرے پلیٹ فارم سے تیسرے پلیٹ فارم تک پہنچایا اور پھر نہایت گرم جوشی سے رخصت ہوئے تو یہ تینوں بھائی اس وسیع وعریض سرزمین پر یکہ و تنہا حسرت و یاس کی تصویر بنے کھڑے رہ گئے۔اباجان نے سب سے پہلے خود کو سنبھالا اور دونوں چھوٹے بھائیوں کو تسلی دی جو ان رخصت ہونے والے جیل کے ساتھیوں کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ لو یہ بھی گئے۔اباجان نے ملکِ خدا تنگ نیست و پائے گدا لنگ نیست کے مصداق قدم بڑھائے کہ لو ، اب ”سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد​

فسانہٗ آزادحيث تعيش القصص. اكتشف الآن