میں کملی ہوئی تیرےعشق میں بقل...

iqraAshrf द्वारा

319 72 0

Rude Hero/Misunderstanding/Multiple couple/ Bitter Attitude Between Couple and Suspense based (دو لوگوں کی زن... अधिक

میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp1
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp 2
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp3
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp4
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp5
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp7
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp8
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp 9
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںLast Ep
میں کملی ہوئی تیرے عشق میںLast Ep

میں کملی ہوئی تیرے عشق میںEp6

15 7 0
iqraAshrf द्वारा

ناول: میں کملی ہوئی تیرے عشق میں
بقلم: اقراءاشرف
قسط نمبر 6

’ بکواس بند کرو تم عائث شاہ! یہ سب تمہارے باپ کی وجہ سے ہوا ہے۔ بلکہ تمہاری وجہ سے بھی۔ اگر اس دن تم میری بات پر یقین کر لیتے تو اپنے باپ کی حقیقت جان لیتے۔۔۔۔‘

” بس کردو!! کسی پر جھوٹا الزام لگاتے ہوئے شرم نہیں آتی تمہیں؟؟“

عائث چیخ پڑا تھا۔ اسی لمحے گاڑی ایک جھٹکا کھا کر رکی تو عائث ہوش میں آیا۔ اور پھر اسٹیئرنگ پر سر رکھ کر آنکھیں موند لیں۔

” آہلہ۔۔۔۔دلدار نے پہلے تمہاری دوست سکھاں کو اغوا کیا‘ اس کی ماں کو موت کے منہ میں دھکیلا اور پھر۔۔۔۔اور پھر تمہیں اغوا کر کے بدنام کرنے کی کوشش کی۔ اور تم نے اس کو چھوڑ کر ایک بار پھر سے میرے بابا پر الزام لگا دیا۔“

عائث نے دونوں ہاتھ سے اپنی کنپٹیاں مسلتے ہوئے کہا۔ اور پھر سر اٹھا کر ارد گرد دیکھا۔ سورج کو غروب ہوئے کافی دیر ہو گئی تھی۔ ہر طرف اندھیرا چھانے لگا تھا۔ وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور ارد گرد نگاہ دوڑاتے ہوئے چونکا۔

” اوہ۔۔۔۔۔کافی دور آگیا ہوں گاؤں سے‘ پتا نہیں میرا دھیان کدھر تھا۔“

وہ خود کو کوستا ہوا گاڑی کے سامنے آیا اور اس کا بونٹ اٹھا کر دیکھنے لگا۔

” اس کو بھی یہیں خراب ہونا تھا۔ اب کیا کروں؟“

عائث نے ایک زور دار ٹھوکر گاڑی پر ماری اور پیچھے ہٹ کر پریشانی سے ارد گرد دیکھنے لگا۔ اسی لمحے اس کی جیب میں رکھا موبائل بجنا شروع ہوا تو اس کی آواز پورے سناٹے میں گونجنے لگی۔

” اسلام علیکم !“

عائث نے بنا دیکھے کال اوکے کر کے موبائل کان سے لگایا تو دوسری طرف جان نے سلام کیا۔

”وعلیکم اسلام ! اچھا کیا تم نے کال کر لی‘ میں خود بھی تمہیں۔۔۔۔“

عائث نے سلام کا جواب دیتے ہوئے بولنا شروع کیا تو جان بیچ میں ہی اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔

”باقی باتیں وہیں آکر سنوں گا تمہاری‘ ابھی تم مجھے یہ بتاؤ کہ تمہارے گاؤں کی طرف کون سی سڑک جاتی ہے۔ نہر کے دائیں طرف والی یا بائیں طرف والی؟“

جان گاڑی کے شیشے سے دونوں طرف کا جائزہ لیتے ہوئے تیزی سے بولا۔

” کیا۔۔۔۔؟ میرا گاؤں۔۔۔نہر۔۔۔سڑک۔۔۔کیا بول رہے ہو جان؟“

عائث اس کی بات سن کر حیرت سے بولا۔

” او یار ! تمہیں سمجھ کیوں نہیں آرہی ہے۔۔۔میں اس وقت ایک نہر کے پل پر موجود ہوں۔ میرے سامنے دو سڑکیں ہیں۔ اور میں نہیں جانتا کہ تمہارے گاؤں کی طرف کون سی سڑک جاتی ہے۔ اسی لیے تمہیں کال کی ہے۔ اب جلدی بتاؤ‘ مجھے پہلے ہی ڈر لگ رہا ہے۔“

جان جھنجھلاتے ہوئے گاڑی کی کھڑکی سے سر باہر نکال کر ارد گرد دیکھ کر بولا۔

” اوہ ! ایسا کرو‘ دائیں طرف والی سڑک پر آجاؤ۔“

عائث نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا تو جان نے فوراً فون بند کیا اور وہاں سے گاڑی کو نہر کے دائیں طرف والی سڑک پر ڈالتے ہوئے گاڑی کی اسپیڈ تیز کر دی۔

عائث اب گاڑی کے بونٹ سے ٹیک لگا کر جان کا انتظار کرنے لگا۔ تقریباً پانچ منٹ بعد عائث کو دور سے کسی گاڑی کی روشنی دکھائی دی تو وہ چونکا۔ اور پھر جلدی سے سڑک کے بیچ آ کھڑا ہوا اور زور زور سے ہاتھ ہلانے لگا۔ لیکن گاڑی کی تیز اسپیڈ دیکھ کر وہ جلدی سے پیچھے ہو گیا۔ ساتھ ہی جان کو کال بھی ملا نے لگا۔

” یہ گاڑی روک کیوں نہیں رہا ہے؟ اور نہ یہ کال پک رہا ہے میری۔۔۔۔؟“

عائث نے جھنجھلاتے ہوئے کچھ حیرت سے قریب آتی گاڑی کو دیکھا۔ اسی لمحے گاڑی کی اسپیڈ تھوڑی کم ہوئی تو عائث پھر سے تھوڑا آگے ہو کر ہاتھ ہلانے لگا۔ وہ سڑک کے بیچ میں اس طرح کھڑا تھا کہ گاڑی میں موجود شخص کو گاڑی کو بریک لگانا پڑا۔ اور اسی لمحے گاڑی سے زور زور سے چیخنے کی آوازیں آنے لگیں۔

” بچاؤ۔۔۔بچاؤ۔۔۔کوئی ہے۔۔۔۔؟ جو میری مدد کر۔۔۔۔۔“

عائث جان کی آواز پہچان کر جلدی سے گاڑی کی طرف بڑھا تو اس نے بھی چیخنا بند کر کے جلدی سے موبائل اور والٹ اٹھاتے ہوئے گاڑی کی چابی نکال کر ہاتھ کھڑکی سے باہر کرتے ہوئے سر پیچھے ٹکا لیا۔ اور آنکھیں بند کر لیں۔

” باہر نکلو۔“

حیرت سے گنگ کھڑے عائث کو جیسے ہی ساری صورت حال سمجھ میں آئی تو وہ اپنی آواز کو کچھ بھاری کرتے ہوئے سپاٹ لہجے میں بولا۔ اور ساتھ ہی اس کے ہاتھ سے موبائل‘ والٹ اور گاڑی کی چابی بھی چھیننے والے انداز میں لے لی۔

” اوکے۔۔۔اوکے۔۔۔پلیز گولی مت چلانا‘ ٹھیک ہے۔ یہ گاڑی تم لے لو۔۔۔سس سوری‘ میرا مطلب کے آپ۔۔۔آپ یہ گاڑی لے لیں اور میری ایک گاڑی گھر موجود ہے۔ وہ بھی آپ لے لینا‘ ٹھیک ہے برو۔۔۔؟“

جان گاڑی سے باہر نکلتے ہوئے تیزی سے بولا۔ جبکہ اس دوران اس کی آنکھیں ہنوز بند تھیں۔

”خبردار جو تم نے اپنی آنکھیں کھولیں۔۔جب تک میں تمہیں آنکھیں کھولنے کا نہ کہہ دوں تب تک تم اسی طرح آنکھیں بند کیے میرے ساتھ چلتے رہو۔“

  عائث اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی گاڑی کی طرف لے گیا پھر ایک ہاتھ ڈرائیونگ سیٹ سے اندر ڈال کر اپنی شال اور گاڑی کی چابی لی اور پھر جان کو تھوڑی دیر وہیں گھمانے کے بعد اس کی گاڑی کے قریب لے آیا۔ اس دوران جان مکیانکی انداز میں وہی کرتا رہا جو عائث کہہ رہا تھا۔ عائث نے اس کو جان کی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بٹھانے کے بعد بھاگ کر ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔

”دیکھو برو! بینک میں بھی کچھ سیونگز ہیں۔ وہ بھی لے لینا‘ بس مجھے شاہوں کی حویلی ڈراپ کر دو۔ بے شک کرایہ بھی لے لینا۔“

جان کی بات سن کر عائث نے ایک زور دار ہاتھ اس کی گدی میں مارا اور بھاری آواز میں اسے خاموش رہنے کا کہا۔ اس بار جان نے اس کی بات مانتے ہوئے خاموشی اختیار کر لی۔ لیکن اس کی گردن میں جلن ہو رہی تھی۔ کیونکہ عائث نے واقعی اسکی گردن پر زور سے ہاتھ مارا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں اس ڈاکو کو جی بھر کہ گالیاں دیں تھیں۔ لیکن آنکھیں کھولنے کی غلطی اس نے نہیں کی تھی۔ اس کی حرکتوں پر عائث بمشکل اپنے قہقے کا گلا گھونٹے ہوئے تھا۔

تھوڑی ہی دیر میں وہ حویلی پہنچ گئے تو عائث نے گاڑی کا دروازہ کھول کر نکلنا چاہا۔ اور اسی لمحے خود پر ٹوٹنے والی افتاد نے اسے بوکھلا دیا تھا۔

                           ••••••••••••

پلوشے کی آنکھ کھلی تو اسے اپنے سر میں درد محسوس ہوا تو وہ سر پکڑ کر اٹھی اور بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ اور پھر آہستہ آہستہ یاد آیا تو وہ تڑپ اٹھی۔

” میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں آہلہ۔۔۔اس حویلی سے تمہارا نام و نشان مٹا دوں گی۔“

وہ غراتے ہوئے بولی۔ سعدیہ بیگم نے اسے دودھ میں نیند کی گولیاں دے کر سلا دیا تھا۔ اب کافی دیر بعد اس کی آنکھی کھلی تھی۔ اسے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا تو وہ بیڈ سے اٹھ کر آہستہ سے چلتی ہوئی کھڑکی تک آئی تو سامنے گیٹ کے قریب عائث کی گاڑی پر نظر پڑی۔

”عائث اس وقت کہاں سے آرہے ہیں اور۔۔۔ اوہ یہ عائث کو کون مار رہا ہے۔۔؟“

پلوشے کی نظر جیسے ہی گاڑی کے شیشے سے اندر پڑی تو اس نے اندر موجود منظر کو دیکھ کر دہل کر اپنے سینے پر ہاتھ رکھا اور نیچے کی طرف دوڑی۔

”کھولو دروازہ۔۔ میں کہتی ہوں دروازہ کھولو۔“

کچھ دیر بعد وہ گاڑی کی فرنٹ سائیڈ کا دروازہ زور زور سے بجانے کے ساتھ ساتھ غصے سے بول بھی رہی تھی۔ جبکہ اندر موجود عائث جس کا رخ فرنٹ سائیڈ پر بیٹھے جان کی طرف تھا اس کی نظر جان کے پیچھے گاڑی سے باہر گاڑی کا دروازہ پیٹتی پلوشے پر پڑی تو وہ چونکا اور جان کو اس طرف متوجہ کرتے ہوئے جان کے ہاتھ بمشکل اپنی گردن سے ہٹائے جو اس کا گلا دبانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا اور ڈرائیونگ سائیڈ کا دروازہ کھول کر باہر نکلا۔

”عا عائث۔۔۔آپ ٹھیک تو ہیں نہ۔۔۔؟ یہ شخص کون ہے اور آپ کو کیوں مار رہا تھا؟“

پلوشے عائث کو باہر نکلتا دیکھ کر اس طرف بھاگی اور عائث کی شرٹ پکڑ کر روتے ہوئے سوال پہ سوال کرنے لگی۔ عائث اس صورت حال کو دیکھ کر گھبرا گیا اور ارد گرد دیکھتے ہوئے اس کے ہاتھ پکڑ کر اس کو خود سے دور کیا اور جلدی سے بولا۔

” ریلیکس پلوشے۔۔۔ میں بلکل ٹھیک ہوں‘ کچھ نہیں ہوا ہے مجھے اور یہ میرا دوست ہے۔“

عائث کی بات پر پلوشے نے گردن موڑ کر پیچھے کھڑے جان کو دیکھا جو خود بھی حیرت سے اس لڑکی کو روتے ہوئے دیکھ رہا تھا اس کے دیکھنے پر گڑبڑاتے ہوئے اِدھر اُدهر دیکھنے لگا۔

” پلوشے جاؤ اور آرام کرو‘ مجھے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے۔“

عائث نے نرمی سے کہا تو پلوشے نے ایک نظر جان کو دیکھا اور پھر عائث کی طرف دیکھتے ہوئے سر ہلا کر لاؤنج کی طرف بڑھ گئی۔ اس کے جانے کے بعد عائث نے جان کو دیکھا اور کچھ بولے بغیر اسے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔ وہ بھی خاموشی سے اس کے پیچھے چل دیا۔

                        ••••••••••••••

”نہیں اماں سائین ! محبت تو دور وہ مجھے پسند بھی نہیں کرتا‘ اور آج تو اس کی آنکھوں میں مجھے نفرت کی چنگاری دکھائی تھی۔“

آہلہ کھڑکی سے ہٹتے ہوئے بولی اور آہستہ سے چلتی ہوئی صوفے کی طرف بڑھی۔

” آہلہ اگر اسے تم سے محبت نہ ہوتی تو وہ تم سے نکاح نہ کرتا۔“

بتول بیگم بضد تھیں۔ اسی لیے اس کی بات کی نفی کرتی ہوئی بولیں۔ آہلہ ان کی بات سن کر تلخی سے ہنس دی۔

” اس نے ایسا ہمدردی میں کیا ہے۔ ہمدردی بھی اس کو مجھ سے نہیں بابا سے تھی۔ اور دوسرا وہ گاؤں کے لوگوں کو بھی سبق سکھانا چاہتا تھا۔“

آہلہ بھی اپنی بات پر بضد تھی۔ اور اسے لگ رہا تھا کہ وہ ماں ہیں اسی لیے انہیں عائث کی آنکھوں میں اس کے لیے نفرت کی بجائے محبت نظر آرہی ہے۔

” آہلہ۔۔۔انسان کے اندر جتنی بھی اچھائی کیوں نہ ہو وہ محض ہمدردی میں اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتا۔ اگر عائث کو صرف ہمدردی ہوتی تو وہ تم سے کبھی بھی نکاح نہ کرتا۔“

بتول بیگم نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے نرمی سے اس کو سمجھانا چاہا۔

” آپ نے شاید ابھی اس کی آنکھوں میں پلوشے کے لیے نرمی نہیں دیکھی تھی۔ لیکن میں نے دیکھی تھی۔“

آہلہ نے نیچے منہ کرتے ہوئے دھیرے سے کہا تو بتول بیگم نے بے اختیار اس کو دیکھا۔

”تو تم مانتی ہو نہ کہ اس کی آنکھوں میں پلوشے کے لیے نرمی تھی‘ محبت نہیں۔ اور ہر نرمی محبت نہیں ہوتی۔“

بتول بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا تو آہلہ لاجواب ہو کر انہیں دیکھنے لگی۔

                          •••••••••••••••

عائث گیسٹ روم میں موجود صوفے پر بیٹھا کبھی جان کو دیکھتا اور کبھی اپنے سامنے رکھی شیشے کی میز کو‘ جس پر جان بہت مطمئن انداز میں آلتی پالتی مارکر بیٹھا عائث کو آنکھیں سکوڑے گھور رہا تھا تو عائث کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو بول پڑا۔

” بس کر دو اب‘ پچھلے پندرہ منٹ سے اسی طرح گھورے جا رہے ہو۔ کچھ منہ سے بھی پھوٹو۔“

وہ جھلاتے ہوئے بولا تو جان ایک جمپ لگا کر نیچے اترا اور میز کے دوسری جانب جا کھڑا ہوا۔

” غلط ! پندرہ نہیں تیرہ منٹ اور کچھ سیکنڈز ہوئے ہیں بس۔“

جان نے اپنے اور عائث کے درمیان پڑی میز کو ایک طرف کرتے ہوئے بولا۔

” تو !!! “

عائث ابرو اچکا کر ایک نظر میز پر ڈالتے ہوئے بولا۔

” تو یہ کہ منہ سے پھوٹنے کی کیا ضروت ہے‘ اس کے لیے میرے ہاتھ ہی کافی ہیں۔“

جان تیزی سے آگے بڑھا اور دونوں ہاتھ اس کے کندھے پر رکھتا ہوا بولا۔ عائث کو پہلے ہی خطرہ محسوس ہو گیا تھا۔ اسی لیے وہ بھی تیزی سے جان کو اپنی طرف آتے دیکھ کر ہوشیار ہو گیا تھا۔ اور پھر وہ ایک دوسرے میں گتھم گتھا ہوئے بچوں کی طرح لڑ رہے تھے۔

” اگر میرا دل بند ہو جاتا تو۔۔۔پہلے ہی میں پاکستان کے بارے میں نیوز سن سن کر ڈرا ہوا تھا۔  اور اوپر سے تم نے پرینک کر کے مجھے ہارٹ اٹیک دینے کی پوری کوشش کی۔“

جان اس کے بال زور سے کھینچتے ہوئے بولا تو عائث  نے درد سے دانت بھنچتے ہوئے ایک زور دار مکہ اس کے پیٹ میں مارا۔ جس نے جان کو کراہنے پر مجبور کر دیا تھا۔

” کیا مطلب ہے تمہارا ؟ کون سی نیوز سنی ہوئی ہیں تم نے پاکستان کے بارے میں؟“

عائث نے اس کو گھورتے ہوئے پوچھا۔ جان اب صوفے پر ڈھیر ہونے والے انداز میں بیٹھا گہرے گہرے سانس لے رہا تھا۔

” یہی کہ یہاں چوری اور ڈکیٹی کی آئے دن وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اور اگر کوئی مزاحمت کرنے کی کوشش کرے تو وہ لوگ جان سے مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔“

جان کچھ سنجیدہ ہوتے ہوئے بولا تو عائث کی ہنسی چھوٹی۔ اور پھر کچھ دیر ہنسنے کے بعد بمشکل خود کو سنبھالتے ہوئے بولا۔

” تو تم نے اسی لیے مجھے خوشی خوشی نہ صرف اپنے پاس موجود ساری چیزیں دے دیں بلکہ وہ سب کچھ بھی بعد میں دینے کا وعدہ کر لیا جو تمہارے گھر یا بینک میں تھا۔“

عائث بول کر پھر سے ہنس دیا تھا۔ اور زیادہ ہنسنے کی وجہ سے اس کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔ جبکہ جان ہنوز سنجیدہ بیٹھا رہا۔ عائث نے اس کو سنجیدہ بیٹھا دیکھ کر اپنی ہنسی روکی اور سنجیدگی سے جان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

” جان !! جو کچھ تم نے لندن بیٹھ کر نیوز میں پاکستان کے بارے میں سنا‘ وہ سو فیصد سچ نہیں ہے۔ میڈیا والے تو ایک نارمل سی بات کو بھی مرچ مصالحہ لگا کر پوری دنیا میں پھیلاتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ کچھ عرصہ پہلے یہاں کہ حالات تھوڑے خراب ہو گئے تھے۔ لیکن اب حالات پہلے سے کافی بہتر ہو گئے ہیں۔ اور اگر کبھی کبھار چوری ڈکیٹی کا واقعہ پیش آتا بھی ہے تو یہ صورت حال دنیا کے کسی بھی کونے کسی بھی ملک میں پیش آسکتی ہے بلکہ کئی ایسے ممالک ہیں جہاں اس قسم کی وارداتیں اس قدر ہوتی ہیں کہ پاکستان میں ہونے والے واقعات ان کے سامنے دب جاتے ہیں۔“

عائث نے کچھ جزباتی سا ہو کر جان کو ہر ممکن یقین دلانے کی کوشش کی تھی کہ وہ پاکستان میں بلکل محفوظ ہے۔

” میں جانتا تھا کہ تم بھی ہر پاکستانی کی طرح اپنے ملک کے خلاف کوئی بات سن کر اسی طرح جزباتی ہو جاؤ گے۔ بہرحال تم ان کا درد نہیں سمجھ سکتے جن پر قیامتیں گزری ہوں۔“

جان نے کچھ تلخی سے کہا تو عائث حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔ جو کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہو گیا تھا۔

” لیکن جان۔۔۔۔“

عائث نے کچھ بولنا چاہا تو جان نے اس کی بات بیچ میں ہی ٹوکی۔ عائث خاموش رہا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ جان کے ساتھ ضرور کوئی حادثہ پیش آیا ہے اسی لیے وہ اس قدر تلخ ہو رہا ہے۔

” وہ کون تھی۔۔۔۔؟“

جان کی آواز نے عائث کو سوچوں کے بھنور سے آزادی دلائی۔

”کون؟“

عائث نے اس کو دیکھتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔

” وہ ہی جو تمہاری میرے ہاتھوں گاڑی میں درگت بنتے دیکھ کر تڑپ اٹھی تھی۔ میں جانتا ہوں وہ بھابھی نہیں تھیں۔ ان کو میں نے دیکھا تھا اسپتال میں۔“

جان نے اپنا بدلہ ادھورا رہ جانے پر کچھ بھناتے ہوئے کہا۔ کیونکہ کمرے میں آکر بھی وہ عائث کو مارنے کی بجائے خود اس سے اچھی خاصی مار کھا چکا تھا۔

” میری کزن۔“

عائث نے جان کے سوال کا مختصر جواب دیا اور گہری سانس لیتے ہوئے کھڑا ہوا۔

” لیکن مجھے تو کچھ اور ہی لگ رہا تھا۔“

جان نے عائث کے چہرے پر کچھ کھوجنا چاہا۔ عائث نے اسے گھوری سے نوازا۔

” شٹ اپ۔۔ وہ واقعی صرف میری کزن ہے۔“

عائث نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا تو جان نے آہستہ سے سر ہلایا۔

” اچھی بات ہے کہ وہ صرف تمہاری کزن ہی ہے۔ لیکن دھیان رہے شاہ صاحب‘ کزن وہ صرف آپ کی نظروں میں ہے۔ ان کی نظروں میں آپ صرف کزن نہیں ہیں۔“

جان نے کندھے اچکاتے ہوئے لاپرواہ انداز میں کہا اور عائث کے چہرے کی طرف دیکھا۔ وہاں ہنوز سنجیدگی تھی۔

” تم ان فضول باتوں کو چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ تم سے ایک زخمی شخص نہیں سنبھالا گیا۔۔۔۔۔؟“

عائث نے  اس کو گھورتے ہوئے پوچھا تو جان نے کان کھجایا۔

” عائث! میں صرف کال سننے باہر گیا تھا۔ واپس آیا تو وہ نہ صرف روم سے بلکہ اسپتال سے ہی فرار ہو گیا تھا۔“

جان نے شرمندگی سے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے بتایا تو عائث نے سر پر ہاتھ پھیرا۔

” اچھا چھوڑو ان باتوں کو‘ تم فریش ہو جاؤ میں تمہارے لیے کھانے کا کہہ کر آتا ہوں۔“

عائث اسے مزید شرمندگی سے بچانے کے لیے جلدی سے کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ جبکہ جان نے ایک نظر ارد گرد گھماتے ہوئے کمرے کا جائزہ لیا اور پھر باتھروم کی طرف بڑھ گیا۔

                          •••••••••••••••

”نہ پلوشے۔۔۔تم اپنے خاندان کی روایات بھول گئی تھیں۔ جو ایک جوان جہان مرد کے گلے لگ کر کھڑی ہو گئیں۔ اور تو اور وہاں ایک غیر مرد بھی موجود تھا۔ اری باؤلی ہو گئی تھی کیا؟ اگر کوئی دیکھ لیتا تو؟“

سعدیہ بیگم نے غصے سے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا تو پلوشے نے سر جھٹکا۔

” اماں سائین ! اب مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ کہ کون کیا کہتا ہے۔ مجھے عائث شاہ کو حاصل کرنا ہے۔ عزت سے نہ سہی بدنام ہو کر ہی سہی۔“

پلوشے نے ضدی لہجے میں کہا تو سعدیہ بیگم نے زور سے ماتھے پر ہاتھ مارا۔ اسی وقت کسی نے دروازہ کھٹکھٹا یا تو وہ دونوں چونکیں۔

” بڑی بی بی سائین ! میں اندر آجاؤں۔۔۔۔؟“

دروازے کے پار سے ملازمہ کی آواز سنائی دی تو سعدیہ بیگم نے پلوشے کو گھورا۔

” آجاؤ نوری۔۔۔۔“

پلوشے نے سعدیہ بیگم کی گھوری کی پروا نہ کرتے ہوئے نوری کو اندر آنے کی اجازت دی تو وہ کمرے میں داخل ہو کر تیزی سے پلوشے کی طرف بڑھی۔

” نوری ! وہ لڑکی کہاں ہے؟“

پلوشے نے بے چینی سے پوچھا۔ سعدیہ بیگم نے پریشانی سے پلوشے کو دیکھا جو ایک ملازمہ کو اپنی کمزوری سے آشنا کر رہی تھی۔

” پلوشے بی بی! آہلہ کو تو چھوٹے سائیں اپنے کمرے میں چھوڑ آئے تھے۔“

نوری نے نخوت سے آہلہ کا نام لیتے ہوئے بتایا تو پلوشے کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔

” دیکھ لیا آپ نے اماں سائین ! یہ انجام ہوا ہے آپ کے مجھے چپ کروانے کا۔ اگر اس وقت ہی مجھے اس کو چوٹی سے پکڑ کر اس حویلی سے باہر کرنے دیا ہوتا تو۔۔۔“

وہ نوری کی بات سن کر بپھر اٹھی تھی۔ اور اپنی بات ادھوری چھوڑ کر زور سے اپنے بال کھینچے تو سعدیہ بیگم اس کے ہاتھ پکڑتی ہوئیں تیزی سے بولیں۔

” پلوشے وہ کون سا اس کو اس کے حقوق دے دے گا۔ تم جانتی ہو نہ کہ یہ صرف مجبوری میں۔۔۔۔“

ابھی وہ بول ہی رہی تھیں کہ پلوشے چیخ اٹھی۔

” اماں سائین ! اگر مجبوری کا نکاح ہے تو اس کو ملازموں کے کمرے میں یا حویلی کے کسی اور کونے میں ڈالے نہ‘ اسے اپنے کمرے میں جگہ دینے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ کمرہ‘ وہ جگہ میری ہے۔ سمجھ رہی ہیں آپ۔۔۔۔؟“

وہ چلائی تھی۔ نوری نے اس کے غصے سے ڈر کر وہاں سے کھسکنے کی کوشش کی تو پلوشے نے اس کا بازو پکڑا اور زور سے مروڑتے ہوئے بولی۔

” تم آہلہ پر نظر رکھو گی۔ اور مجھے اس کے ایک ایک پل کی خبر دو گی۔ اور اگر تم نے اس کمرے کی کوئی بات ادھر اُدھر کرنے کی کوشش کی تو تمہاری ماما سائیں کے خاص ملازم دلدار کے عشق میں گرفتار ہونے کی خبر اس گاؤں میں جنگل میں آگ کی طرح پھیلے گی۔ اور سب کو پتا چل جائے گا کہ تم آہلہ اور اس کی دوست سکھاں سے کیوں خار کھاتی ہو۔“

پلوشے نے ہلکی سی زہریلی ہنسی کے ساتھ اسے تنبہیہ کی تو وہ آنکھیں پھاڑے بے یقینی سے پلوشے کو دیکھنے لگی۔ جو بات اس نے اپنی بدنامی کے ڈر سے اپنی جان سے عزیز دوست سے چھپائی تھی وہ پلوشے بی بی کو پہلے سے ہی پتا تھی۔

” آ آپ کو کیسے پتا کہ۔۔۔۔؟“

”مجھے تو یہ بھی پتا ہے کہ دلدار نے تمہیں کتنی بار زلیل کر کے دھتکارا ہے۔ کیونکہ وہ تم سے نہیں سکھاں سے محبت کرتا تھا۔ اور دیکھو اسے اغوا کر کے ہی سہی لیکن نکاح بھی اسی سے ہی کیا جس سے اس کو محبت تھی۔“

نوری نے پوچھنا چاہا تو پلوشے نے اس کی بات کاٹی۔ اور سکون سے بولتی ہوئی سعدیہ بیگم کے برابر میں جا کر بیٹھ گئی۔ نوری نے منہ نیچے کرتے ہوئے اپنے آنسو پینے کی کوشش کی اور جانے کے لیے مڑی۔ لیکن پلوشے کی اگلی بات پر وہ رکی تھی۔

” اگر تمہیں سکھاں سے بدلہ لینا ہے تو اس کے لیے تمہیں آہلہ کو ہر ممکن تکلیف دینی ہوگی۔ کیونکہ آہلہ اور سکھاں اتنی گہری سہیلیاں ہیں کہ چوٹ ایک کو لگتی ہے تو تڑپ دوسری اٹھتی ہے۔“

پلوشے نے اب سکون سے کہتے ہوئے نوری کے چہرے کو دیکھا۔ جو آنسو ضبط کرنے کے چکر میں سرخ ہو چکا تھا۔ اس دوران سعدیہ بیگم خاموشی سے کچھ مطمئن انداز میں ان کے درمیان ہونے والی گفتگو سن رہی تھیں۔

” اس کے لیے مجھے کیا کرنا ہوگا۔۔۔۔؟“

نوری کو سمجھ آگئی تھی کہ پلوشے اس سے اپنا کوئی کام کہے گی۔ اسی لیے وہ یہ سب کچھ کہہ رہی ہے۔

” تمہیں وہ کرنا ہوگا جو میں کہوں گی۔ اور فکر نہ کرنا تمہیں اس کے پیسے بھی ملیں گے۔“

پلوشے نے نخوت سے کہتے ہوئے آنکھیں سکیڑ کر نوری کو دیکھا جس کے چہرے پر پیسوں کا سن کر تھوڑی دیر پہلے والا دکھ سیکنڈز میں غائب ہوا تھا۔

” چھوٹی بی بی ! آپ جو کہیں گی‘ جب کہیں گی میں کروں گی۔ آپ فکر ہی نہ کریں۔“

نوری نے خوشامدی انداز میں کہا۔ پلوشے نے سر ہلاتے ہوئے اسے جانے کا اشارہ کیا تو وہ سر ہلاتی ہوئی باہر چلی گئی۔

” تم کیا کرنے والی ہو پلوشے؟“

سعدیہ بیگم نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے دھیمے انداز میں پوچھا تو پلوشے مسکرا دی۔

” بس دیکھتی جائیں آپ اماں سائین‘ اس آہلہ کی بچی کو تو میں ایسا مزہ چکھاؤں گی کہ وہ مرتے دم تک نہیں بھولے گی۔“

پلوشے نے پرسکون انداز میں کہتے ہوئے سعدیہ بیگم کا ہاتھ اپنے ہاتھ سے ہٹایا اور کھڑی ہوئی۔

” دیکھو پلوشے ! جو بھی کرنا احتیاط سے کرنا۔ اور کچھ ایسا مت کرنا کہ الٹا تم ہی پھنس جاؤ۔“

سعدیہ بیگم نے پلوشے کو دروازے کی طرف جاتے دیکھ کر کہا تو وہ جو باہر جانے کے لیے کمرے کا دروازہ کھولنے ہی والی تھی‘ واپس پلٹی اور ہنس دی۔

” ابھی تھوڑی کچھ کر رہی ہوں میری بھولی اماں سائین‘ ابھی تو بس محترمہ کو زرا اپنا دیدار کروانا ہے۔ آپ اس بات کو چھوڑیں اور ماما سائیں سے بات کریں۔“

پلوشے نے سعدیہ بیگم کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا اور پھر واپس مڑی اور دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ جبکہ سعدیہ بیگم اس کے جانے کے بعد اس سوچ میں پڑ گئیں کہ قاسم شاہ کو کس طرح راضی کرنا ہے۔

                           •••••••••••••••

” سکھاں دھیی ! کہاں ہو تم؟ زرا باہر آکر کھانا لے جاؤ۔“

ارباز نے سکھاں کے گھر کے باہر کھڑے ہو کر تین بار آواز لگائی۔ تب جا کر سکھاں نے دروازہ کھولا۔

” ارے ارباز چاچا ! آپ ایک بار زور سے دروازہ کھٹکھٹاتے تو مجھے آواز سنائی دے جاتی۔ اتنی دیر سے آپ آوازیں دے رہے تھے اور مجھے لگا کہ شاید گلی میں کوئی کسی کو پکار رہا ہے۔“

سکھاں نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔ اس کی آواز بیٹھی ہوئی تھی۔ یقیناً وہ سارا دن روتی رہی تھی۔

” سکھاں دھیی ! جو گھر ویران پڑا ہو‘ اس گھر کے دروازے پر دستک نہیں دیا کرتے۔ اگر دستک پر کوئی دروازہ نہ کھولے تو اس دستک کی تکلیف بڑی ازیت ناک ہوتی ہے۔ نہ صرف دستک دینے والا بلکہ وہ دستک سننے والا بھی تڑپ اٹھتا ہے۔“

ارباز نے آسمان کی طرف دیکھا جو آج چاند اور تاروں کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھا۔ اور ہر طرف کالے بادل چھائے تھے۔

” چاچا ! تو کیسی باتیں کر رہا ہے؟ اور یہ آسمان کی طرف کیوں دیکھ رہا ہے؟“

سکھاں نے حیرت سے ارباز چاچا کو دیکھا جو آج دیوانوں کی سی باتیں کر رہے تھے۔

” دھیی رانی! دیکھ رہا ہوں۔ یہ کالے بادل تو بلاجہ بدنام ہیں۔ اصل اندھیرا تو تب ہوتا ہے جب ہمارا دل سیاہ پڑ جاتا ہے۔“

ارباز نے دھیرے سے کہا۔ ان کی نظریں ابھی تک آسمان کی طرف اٹھی ہوئی تھیں۔ لیکن سکھاں کے اگلے سوال پر وہ بے اختیار اس کو دیکھنے لگے تھے۔ جو سوال کر کے جواب کی منتظر تھی۔

” کیا آپ نے کسی کا کالا دل دیکھا ہے ارباز چاچا؟ اگر دیکھا ہے تو مجھے بھی بتائیں نہ کہ وہ کیسا ہوتا ہے؟ کیا بلکل ویسا ہوتا ہے جیسے دلدار اور قاسم شاہ کا دل ہے؟“

سکھاں کے سوال پر ارباز کے گلے میں آنسوؤں کا ایک گولہ اٹکا تھا۔

” نہیں‘ کالا دل تو ایسا ہوتا ہے جیسے میرا دل۔۔۔۔“

ارباز کہہ کر رکے نہیں تھے۔ سکھاں بت بنی ان کو جاتا دیکھتی رہی۔ جو اپنے گھر کی طرف جانے کی بجائے مخالف سمت کی طرف بڑھے چلے جا رہے تھے۔ اور سکھاں جانتی تھی کہ وہ سمت انہیں قبرستان کی طرف لے جائے گی۔ اس نے ٹھنڈا سانس بھرا اور  چھوٹی دیوار پر رکھی کھانے کی ٹرے اٹھائی اور اندر چلی گئی۔

                          ••••••••••••••

بتول بیگم سیڑھیوں سے اتر کر اپنے کمرے کی طرف جانے ہی لگی تھی جب انہیں سامنے کچن کے دروازے پر عائث شاہ کھڑا ملازمہ کو کچھ ہدایات دیتا ہوا نظر آیا۔ اسی وقت عائث مڑا تو بتول بیگم کو وہاں دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ ان کے چہرے پر آنسوؤں کے مٹے مٹے سے نشانات تھے۔ اس نے مٹھیاں بھنچیں۔

” آپ کہاں سے آرہی ہیں؟“

عائث نے اپنے غصے پر بمشکل قابو پاتے ہوئے پوچھا۔

” میں اوپر اپنی بیٹی کے پاس اس کے کمرے میں گئی تھی۔ اور یہ تم بھی جانتے ہو۔ پھر یہ سوال پوچھنے کا مقصد کیا ہے؟“

بتول بیگم نے مسکراتے ہوئے اس کے قریب آکر کہا۔ مسکراہٹ ان کے چہرے سے جدا ہی نہیں ہو رہی تھی۔ عائث ایک لمحے کو تو ان کی مسکراہٹ دیکھ کر شک میں پڑ گیا۔ لیکن پھر سر جھٹکتے ہوئے پیار سے بولا۔

” اماں سائین ! آپ فکر نہ کریں‘ اور آج آپ اپنے کمرے میں مت جائیے گا۔ بابا سائیں غصے میں ہیں۔ آپ کو ڈانٹ دیں گے۔“

عائث کی بات سن کر بتول بیگم کھل کر مسکرا دیں۔

” میرے لال ! فکر تو اب تم نہ کرو‘ کیونکہ مجھے جو چاہیے تھا وہ مجھے مل گیا۔ اب تمہارے بابا سائیں مجھے کچھ نہیں کہہ سکتے۔“

بتول بیگم کی آواز میں پہلے خوشی اور پھر لاپرواہی جھلکی۔ عائث نے حیرت سے انہیں دیکھا۔ جو قاسم شاہ کے تھوڑا سا غصہ کرنے پر بھی تھر تھر کانپنے لگتی تھیں۔ اور آج اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی انہیں قاسم شاہ یا ان کے غصے کی کوئی پروا نہیں تھی۔

عائث خیالوں سے چونکا تو بتول بیگم جا چکی تھیں۔ اس نے ایک نظر اوپر جاتی سیڑھیوں کو دیکھا اور ایک ساتھ دو دو سیڑھیاں پھلانگتے اپنے کمرے تک پہنچا۔ اور کمرے کا دروازہ اتنے زور سے پیٹا کہ اندر موجود آہلہ اچھل پڑی تھی۔

” کون ہے۔۔۔۔؟“

اندر سے آہلہ کی آواز آئی تو عائث نے ایک بار پھر سے مٹھیاں بھنچیں اور دانت پیستے ہوئے بولا۔

” دروازہ کھولو۔“

اس کی آواز سن کر آہلہ نے جلدی سے دروازہ کھولا اور پیچھے ہٹ گئی۔ عائث کمرے میں داخل ہوتے ہی تیزی سے اس کی طرف آیا جو دیوار کے ساتھ لگی اس کو ہی دیکھ رہی تھی۔

” منع کیا تھا نا میں نے کہ میری اماں سائین کی آنکھوں میں تمہاری وجہ سے آنسو نہیں آنے چاہیے۔“

آہلہ نے اس کو اپنی طرف آتا دیکھ کر ایک طرف ہونا چاہا لیکن عائث نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے ارد گرد دیوار پر رکھ کر اسے جانے سے روکا اور غراتے ہوئے بولا تھا۔ اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔ آہلہ کو لگا وہ انہی شعلوں سے اسے جلا کر بھسم کر دینا چاہتا ہے۔

” میں نے کچھ نہیں کہا اماں سائین کو۔۔۔۔“

آہلہ نے اپنی صفائی میں بولنا چاہا لیکن عائث نے تیزی سے ایک ہاتھ اس کے منہ پر رکھ کر اس کو خاموش کروایا۔

” خبر دار اگر تم نے پھر سے میری اماں سائین کو اماں سائین کہا۔ اور میری اماں سائین سے دور رہو۔ تم نے بابا سائیں سے بدتمیزی کی تھی تو میں برداشت کر گیا تھا۔ لیکن اگر تم نے اماں سائین کو اپنے زہریلے الفاظوں سے تکیلف دینے کی کوشش کی تو میں تمہاری زبان کھینچ لوں گا۔“

عائث نے اس کا منہ دبوچتے ہوئے کہا۔ اس کی آنکھیں بے اختیار بھر آئیں تھیں۔ لیکن اس نے اپنی آنکھوں سے آنسوؤں کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اور اگلا لمحہ عائث شاہ کے لیے خاصا حیران کن تھا۔

” اماں سائین۔۔۔۔اماں سائین۔۔۔۔اماں سائین۔ لے لیا میں نے اماں سائین کا نام‘ اور دور بھی نہیں رہوں گی ان سے بلکہ جو میرا دل چاہے گا میں ان سے وہ بات کروں گی۔ اگر تم میں ہمت ہے تو مجھے روک کر دکھانا۔“

آہلہ نے اسے دھکا دیا تھا جس پر وہ لڑکھڑاتے ہوئے پیچھے ہوا تھا اور اس کے پیچھے ہٹتے ہی وہ اس سے دور ہوئی اور مضبوط لہجے میں بولی۔ جبکہ عائث جو یہ سمجھ رہا تھا کہ اب وہ روئے گی‘ گڑگڑائے گی۔ وہ الٹا اسی کو للکار رہی تھی۔

”  میں تمہیں۔۔۔۔“

ابھی وہ اس کی طرف بڑھتے ہوئے بولا ہی تھا کہ اس کی نظر دروازے سے باہر کسی کے لہراتے آنچل پر پڑی۔

” کون ہے باہر۔۔۔۔؟ میں پوچھ رہا ہوں‘ باہر کون ہے؟“

عائث بولتے ساتھ ہی دروازے پر آیا لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ کمرے سے باہر نکل کر ارد گرد دیکھنے لگا۔ اسے کہیں بھی کوئی نظر نہیں آیا تو واپس پلٹا لیکن اسی وقت آہلہ نے دھاڑ سے دروازہ اس کے منہ پر بند کیا تھا۔

” دروازہ کھولو آہلہ۔۔۔۔ ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔“

عائث نے زور زور سے دروازے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔

” تم سے برا تو ویسے بھی کوئی نہیں ہے۔“

آہلہ نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ اسے لگ رہا تھا کہ اس کے جبڑے ہل گئے ہیں۔ درد کی شدت سے اس سے بولا نہیں جا رہا تھا۔

” آہلہ میری بات سنو۔۔ اگر تم نے دروازہ نہیں کھولا تو میں توڑ دوں گا۔“

عائث نے دانت پیستے ہوئے آخری کوشش کرتے ہوئے کہا لیکن اس کی یہ کوشش بھی بے کار گئی تھی۔

” توڑ دو‘ لیکن میں تمہارے کہنے پر تو کبھی دروازہ نہیں کھولوں گی‘آہ۔“

آہلہ بولتے ساتھ ہی کراہی تھی۔ کیونکہ اس کے منہ میں درد پہلے سے زیادہ ہو گیا تھا۔ جب کہ باہر کھڑے عائث نے غصے سے ایک زور دار ٹھوکر دروازے پر ماری اور نیچے چلا گیا۔

                         •••••••••••••••••

पढ़ना जारी रखें

आपको ये भी पसंदे आएँगी

2 0 1
بارت 1
Tales of heart Sophie द्वारा

सामान्य साहित्य

99 6 7
Wo log jo nahi chahte milna zindagi kyu unhe ek hi mod par baar baar le aati hai..... Tumhe kabhi ksi se mohabbat huyi??? Ha huyi thi To shadi kyu na...
Aşkım Afreen Khan द्वारा

सामान्य साहित्य

2.8K 181 22
یہ کہانی ہے پشاور کی فرسودہ روایت "غگ" کے بارے میں ۔ یہ کہانی ہے عمارہ ایبک اور خانزادہ ابراہیم کی یہ کہانی ہے بیازد اسلان خان اور گل نین دلاور خان...
28.9K 2.1K 84
کہانی ایک ایسی لڑکی کی جو ہر مشکل اور ہر ظلم سے مقابلہ کرتی ہے ۔۔۔۔