دل ریزہ ریزہ گنوا دیا۔۔❤ (Com...

Por MaheenShahzad1

72.7K 5.1K 2.3K

Mending of hearts❤ Más

Sneak Peak
Episode 1
Episode 2
Episode 3
Episode 4
Episode 5
Episode 6
Episode 7
Episode 8
Episode 9
Episode 10
Episode 11
Episode 12
Episode 14
Episode 15
Episode 16
Episode17
Episode 18
Episode 19
Episode 20
Episode 21
Episode 22
Episode 23
Episode 24
Last episode.

Episode 13

2.3K 193 134
Por MaheenShahzad1

وہ گرین کلر کی کرتی اور کیپری پہنے تیار ہوگئی تھی۔۔ ہم رنگ دوپٹہ کندھے پر پھیلا رکھا تھا جبکہ بالوں کو ہالف کیچ کیا ہوا تھا۔۔ چہرہ کسی بھی قسم کے میک اپ سے عاری تھا کیونکہ اب ان سب چیزوں سے اس کا دل اچاٹ ہوچکا تھا۔۔ جب دل کی ہی دنیا ویران ہو تو باہر کی رونقیں کہاں بھاتی ہیں۔۔ وہ تیار ہو کر نیچے تو آ چکی تھی مگر اب ڈرائنگ روم میں جانے کی ہمت اس میں نہیں ہو رہی تھی۔۔ خدیجہ اس سے پہلے ہی اندر جا چکی تھی۔۔ جوئی اور وقت ہوتا تو وہ بھی دھڑلے سے اندر جاتی مگر اب جانے کیوں اسے جنید سے جھجک سی محسوس ہورہی تھی۔۔ حالانکہ اس کے دل میں جنید کو لے کر کوئی احساس کوئی جذبہ موجود نہیں تھا مگر پھر بھی ایک فطری جھجک تھی جو اندر جانے میں آڑے آ رہی تھی۔۔
ہمت کر کہ اس نے اندر داخل ہونے کے لیے قدم بڑھایا ہی تھا کہ اندر سے جنید باہر نکلا۔۔ وہ کسی سے فون پر بات کر رہا تھا اس لیے بے دھیانی میں باہر آیا اور اسی وجہ سے ان دونوں کا تصادم ہو گیا۔۔
"سوری۔۔ میں نے دیکھا ہی نہیں تم اندر آ رہی ہو۔۔ "
فون فوراََ بند کر کہ جنید شرمندگی سے بولا۔۔
"ک۔۔ کوئی بات نہیں۔۔"
ہانیہ جھجکتے ہوئے بولی۔۔ ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا جو گرے ٹی شرٹ کے ساتھ بلیک پینٹ پہنے ہوئے تھا۔۔ پھر فورا ہی نظر چرا لی۔۔ اس نئے رشتے نے تو اسے مصیبت میں ہی ڈال دیا تھا۔۔
"اچھی لگ رہی ہو۔۔ "
جنید بے اختیار ہی بول بیٹھا تو ہانیہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔
"کیا ہوا تعریف ہی کی ہے۔۔ برائی تو نہیں کی۔۔ "
اسے حیرت سے خود کو تکتا دیکھ کر وہ مسکراتے ہوئے بولا۔۔ ہانیہ اپنا سر جھٹکتی خاموشی سے وہاں سے نکل گئی البتہ دل اپنی معمول کی رفتار سے زیادہ تیز رفتار پر دھڑک رہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہمارا تو بہت دل تھا بھائی جان کے دونوں بچوں کی شادی پر رونق لگتی مگر اب ہانیہ کی حالت آپ کہ سامنے ہی ہے۔۔ "
خدیجہ اور ہانیہ کچن میں کھانے کا انتظام کرنے چلی گئیں تو فرزانہ بیگم نے بات شروع کی۔۔
"ہم سمجھتے ہیں ہانیہ کی حالت اس لیے ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ زیادہ دھوم دھام سے شادی نا کی جائے۔۔ بس سادگی سے نکاح کر کہ ہم اپنی بیٹی کو اسی دن رخصت کروا کر لے جائیں گے۔۔ "
محمود صاحب بولے۔۔
"بچوں کی خواہش ہے کہ ایک چھوٹا سا فنکشن مہندی کا بھی کر لیتے ہیں گھر میں ہی۔۔ بس اپنوں کے درمیان۔۔ "
سلمی بیگم بولیں۔۔
"جیسے آپ کو مناسب لگے۔۔ "
فرزانہ بیگم نے کہا۔۔
"ہم زیادہ دیر کی تاریخ نہیں رکھنا چاہتے فرزانہ۔۔ خیر کا کام ہے جتنی جلدی ہو جائے اتنا ہی اچھا ہے۔۔ اور ویسے بھی کون سی اتنی تیاریاں کرنی ہیں جو زیادہ وقت لگے۔۔۔ اپنے گھر والی بات ہی ہے۔۔ میرے خیال میں تو اگلے مہینے کی تاریخ بہتر رہے گی۔۔ "
سلمی بیگم بولیں۔۔
"مگر بھابھی یہ تو بہت جلدی ہے۔۔ آخر کو تھوڑی بہت تیاری تو کرنی ہی ہوتی ہے۔۔"
کامران صاحب بولے۔۔
"سلمی ٹھیک کہہ رہی ہے۔۔ ایک مہینہ بہت ہوتا ہے تیاریوں کے لیے۔۔ اگلے ماہ کی کوئی بھی تاریخ رکھ لیں ۔۔۔ موسم بھی بہتر ہوگا۔۔"
محمود صاحب بولے۔۔
"جیسے آپ کو مناسب لگے بھائی صاحب۔۔"
کامران صاحب بولے۔۔
"میں آپ سے بھی نکاح کی تاریخ لینا چاہتا ہوں بھائی جان۔۔ میرا دل ہے ایک ہی بار اپنے دونوں بچوں کے فرض سے فارغ ہو جاؤں۔۔"
کامران صاحب تایا جان کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولی۔۔
"میں تو خود یہی چاہتا ہوں کہ اب اپنی بیٹی کے فرض سے فارغ ہوجاؤں۔۔ تم جو تاریخ بھی رکھو گے مجھے منظور ہے۔۔"
تایا جان بولے۔۔
"ٹھیک ہے پھر۔۔ جس دن ہانیہ اور جنید کی مہندی کرنی ہے اسی دن حسن اور خدیجہ کا نکاح بھی کر دیتے ہیں۔۔ "
کامران صاحب بولے۔۔
"یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔ ایک ساتھ ہی دونوں فرض ادا ہو جائیں گے۔۔"
محمود صاحب نے بھی ان کی تائید کی۔۔
"تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہے جنید۔۔؟ "
کامران صاحب نے خاموش بیٹھے جنید سے پوچھا۔۔
"نہیں انکل۔۔ جیسے سب کی مرضی۔۔ "
وہ فرماں برداری سے بولا۔۔۔
"حسن تمہیں۔۔؟ "
وہ حسن کی طرف متوجہ ہوئے۔۔۔
"میرا خیال میں یہ بہت جلدی ہے بابا۔۔ آپ ہانیہ کی شادی کر دیں مگر میرا نکاح فلحال ملتوی کر دیں۔۔ پہلے خدیجہ کو اس کی تعلیم مکمل کرنے دیں۔۔ "
حسن سنجیدگی سے بولا۔۔ اس کہ اعتراض پر تایا جان کا دل مرجھا گیا۔۔۔ حسن کا کھینچا کھینچا سا رویہ سب ہی محسوس کر سکتے تھے۔۔
"تعلیم بھی مکمل ہو جائے گی اس کی۔۔ اور ویسے بھی رخصتی تو تعلیم مکمل ہونے کے بعد ہی کی جائے گی۔۔ فلحال نکاح میں دیری نہیں کرنی چاہیے۔۔  ہانیہ کے ساتھ ہی تمہارا بھی نکاح ہوجائے گا۔۔"
کامران صاحب اس کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے بولے تو وہ فقط لب بھینچ کر خاموش ہو گیا۔۔
اس کے بعد مبارک باد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔۔ سب ایک دوسرے کو مٹھائی کھلا رہے تھے۔۔ حسن کی نظر خدیجہ پر پڑی جو سب کے ساتھ مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہی تھی اور بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔ اپنے چہرے پر نظروں کا ارتکاز محسوس کر کہ خدیجہ نے نظر اٹھا کر حسن کی طرف دیکھا تو وہ فورا ہی نظر چرا گیا۔۔
جنید کی نظر ہانیہ پر پڑی تو وہ خاموش بیٹھی تھی۔۔ چہرے پر جیسے زبردستی مسکراہٹ سجائے ہوئے تھی۔۔ وہ اس رشتے سے بالکل راضی نہیں تھی۔۔ کوئی بھی اس کی شکل دیکھ کر اندازہ لگا سکتا تھا۔۔ لیکن کوئی بات نہیں۔۔ اب جنید کو ہی اسے راضی کرنا تھا۔۔ اسے راضی رکھنا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانے کے بعد چائے کا دور چل رہا تھا۔۔ سب بڑے ایک طرف کو بیٹھے باتوں میں مصروف تھے جبکہ سب بچے ایک طرف کو بیٹھے تھے۔۔ حسن اور جنید آپس میں گفتگو کر رہے تھے جبکہ ہانیہ خدیجہ اور عمیر اپنی باتوں میں لگے ہوئے تھے۔۔
حسن کے موبائل پر کال آئی تو وہ اٹھ کر باہر چلا گیا۔۔
"تم کہاں جا رہی ہو۔۔؟ "
حسن کے بعد خدیجہ کو بھی اٹھتے دیکھ کر ہانیہ نے پوچھا۔۔
"تمہارے بھائی کو مبارک دینے ۔۔۔ "
خدیجہ شرارت سے بولی۔۔
"تم جان کر ان سے پنگے لیتی ہو بعد میں وہ کچھ کہہ دیں تو روتی ہو۔۔"
"بس کیا کروں۔۔ انہیں چھیڑے بغیر میرا دل بھی تو نہیں لگتا۔۔ اس لیے پنگے لیتی رہتی ہوں۔۔ "
وہ مسکرا کر کہتی وہاں سے چلی گئی جبکہ ہانیہ بھی اس پر مسکرا کر رہ گئی۔۔ جنید جو کب سے ہانیہ کو ہی نظروں کے حصار میں لیے ہوئے تھا اسے مسکراتا دیکھ کر وہ بھی مسکرایا۔۔
"عمیر تمہیں شاید ماما بلا رہی ہیں۔۔ "
جنید عمیر سے بولا۔۔
"صاف صاف بولیں آپ کو بھابھی سے باتیں کرنی ہیں۔۔ اب میں بچہ تو ہوں نہیں جو آپ کی باتوں میں آ جاؤں۔۔"
عمیر منہ بنا کر کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔  جنید اس کی بات پر ہنس دیا۔۔ ہانیہ بلاوجہ ہی شرمندہ ہوئی۔۔ عمیر کے جانے کے بعد ہانیہ بھی وہاں سے جانے لگی جب جنید نے اسے اٹھتا دیکھ کر اسے پکارا۔۔
"تم کہاں جا رہی ہو۔۔؟ بیٹھ جاؤ۔۔"
"وہ میں۔۔۔"
ہانیہ جھجکی۔۔
"بیٹھ جاؤ ہانی۔۔ کیسی طبیعت ہے اب تمہاری۔۔؟ "
جنید کے کہنے پر وہ جھجکتے ہوئے دوبارہ اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔۔
"ٹھیک ہوں۔۔"
وہ آہستہ سے بولی۔۔
"زیادہ درد تو نہیں ہوتا اب۔۔؟ میڈیسن ٹائم پر لیتی ہو۔۔؟ "
"جی لیتی ہوں۔۔"
وہ ہنوز اسی انداز میں بولی۔۔
"دیکھو ہانی نیا رشتہ بننے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم بھول جائیں کہ ہمارے درمیان پہلے بھی کوئی رشتہ ہے۔۔ تم میری کزن بھی ہو۔۔ اور پھر میری پیشنٹ بھی۔۔ اب اگر ہمارے درمیان تکلف کی دیوار کھڑی ہو جائے گی تو کیسے گزارا ہوگا۔۔ "
جنید اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔۔
"اس سب میں آپ کا قصور ہے۔۔ نا آپ اس نئے رشتے کی ہامی بھرتے۔۔ نا باقی سب رشتے بھی ٹوٹ جاتے۔۔ "
ہانیہ غصے سے بولی۔۔
"یہ نیا رشتہ تو باقی سب رشتوں سے خوبصورت ہے ہانی۔۔ اس سے تو ہمارے باقی رشتے بھی مضبوط ہوتے ہیں۔۔ "
"آپ کے لیے ہوگا خوبصورت۔۔ میرے لیے نہیں ہے۔۔ "
وہ غصے سے کہتی وہاں سے چلی گئی جبکہ جنید بس اسے دیکھتا رہ گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کال بند کر کہ واپس آ رہا تھا جب اپنے سامنے خدیجہ کو کھڑا دیکھ کر بولا۔۔ اس کہ ہاتھ میں چائے کا کپ تھا۔۔
"آپ کی چائے ٹھنڈی ہو رہی تھی میں نے سوچا دے آؤں آپ کو۔۔"
وہ اس کی سوالیہ نظروں کے جواب میں بولی۔۔
"میں نے کہا تھا تم سے ایسا کرنے کو۔۔؟ "
حسن اپنا غصہ ضبط کرتا ہوا بولا۔۔
"نہیں کہا تو نہیں تھا لیکن وہ کیا ہے نا اب ہمیں ساری زندگی ساتھ ہی تو گزارنی ہے۔۔ تو اب بن کہے بھی ایک دوسرے کی باتیں سمجھنا پڑیں گی نا۔۔ اس لیے ابھی سے عادت ڈال رہی ہوں۔۔"
وہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔
"عادت اور بھی بہت چیزوں کی ڈال لو خدیجہ۔۔ برداشت تمہیں اب بہت کچھ کرنا پڑے گا۔۔ "
وہ سنجیدگی سے بولا۔۔۔
"آپ پریشان مت ہوں۔۔ آپ کہ ساتھ گزارا کرنا ہے تو ظاہر سی بات ہے خود کو ہر طرح کی عادت ڈال ہی لی ہے میں نے۔۔ "
"اچھی بات ہے۔۔ جتنی جلدی سمجھ لو بہتر ہے۔۔"
"آپ بھی کچھ سمجھ لیں اب۔۔ زندگی مجھ اکیلی نے نہیں گزارنی۔۔"
وہ بھی اسی کہ انداز میں بولی۔۔
"میں جو کر رہا ہوں بہتر کر رہا ہوں۔۔ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔"
"نا نا۔۔ میں اپنے لیے نہیں آپ کے لیے پریشان ہوں۔۔"
وہ چہرے پر دلفریب مسکراہٹ سجا کر بولی تو حسن نے اسے گھورا۔۔
"خیر! مبارک ہو آپ کو۔۔ "
پھر وہ مسکرا کر کہتی وہاں سے چلی گئی جبکہ وہ فقط گھور کر رہ گیا کہ وہ چھوٹی لڑکی اسے ہر بار لاجواب کر کہ نکل جاتی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ہماری شادی میں ابھی باقی ہیں ہفتے چار۔۔ مہینے بیت گئے۔۔ ام آگے مجھے نہیں آتا یہ گانا بس اس سے ہی گزارا کریں۔۔ "
وہ لوگ ان کہ گھر سے نکلنے ہی والے تھے جب جنید کے موبائل پر اسامہ کی کال آئی۔۔
"آ گئی تمہیں ہماری بھی یاد۔۔؟ "
جنید بولا۔۔
"میں نے تو اس خیال سے فون نہیں کیا کہ سیکرٹ ملاقاتیں چل رہی ہوں گی۔۔ کہیں میری وجہ سے ڈسٹرب نا ہو جائیں۔۔"
اسامہ شرارت سے بولا۔۔
"بہت بدتمیز ہو تم۔۔"
جنید ہنس دیا۔۔
"اور آپ میسنے۔۔ توبہ توبہ حال دیکھو ذرا۔۔ شادی سے پہلا ہی لڑکا سسرال پہنچا ہوا ہے۔۔ لو بھلا بتاؤ ہمارے زمانے میں کوئی ایسے ہوتا تھا۔۔ شادی والے دن ہی اپنی دلہن کو دیکھتے تھے اور ایک ہفتہ تو ان کی شکل یاد کرنے میں ہی لگ جاتا تھا جبکہ یہاں تو دولہا دلہن بیٹھ کر اکٹھے ڈنر کر رہے ہیں۔۔ تونہ بھئی۔۔ کیسا زمانہ آگیا ہے۔۔ "
اسامہ بڑی محلے کی عورتوں کی طرح بولا تو جنید کے لیے اپنی ہنسی قابو میں رکھنا بہت مشکل ہوگیا۔۔
"کیا چیز ہو تم اسامہ۔۔ کیسے آتی ہیں اتنی باتیں تمہارے دماغ میں۔  "
جنید ہنستے ہوئے بولا۔۔
"بس یہ ٹیلنٹ تو مجھ میں بچپن سے ہی تھا۔۔ مسخرہ بننا چاہتا تھا۔۔ ابا جی کے ڈر سے ڈاکٹر بنا بیٹھا ہوں۔۔ خیر بھابھی جان کہاں ہیں ہماری۔۔؟ ان سے تو بات کروائیں۔۔"
"بھابھی جان آپ کی اپنے کمرے میں جا چکی ہیں۔۔"
"او ہو۔۔ بڑا افسوس ہوا۔۔ چلیں پھر آپ بیٹھ کر آہیں بھریں۔۔ میں اب سو جاؤں۔۔ میری طرف سے سب کو مبارک باد کا پیغام دے دیں۔۔"
اسامہ بولا۔۔
"تم خود ہی کر لو سب سے بات۔۔"
جنید نے یہ کہہ کر والیم کھول دیا تو اسامہ سب سے بات کرنے لگا۔۔
"شکر ہے بھئی اب ان دونوں کی ندیا تو پار لگی۔۔ اب میری باری ۔۔ ہائے اللہ۔۔ مجھے تو ابھی سے شرم آ رہی ہے۔۔"
اسامہ کہ کہنے پر سب ہنس دیے۔۔ وہ واقعی اس گھر کی رونق تھا۔۔ وہ یہاں موجود نا ہو کر بھی سب کہ ساتھ رہتا تھا ہمیشہ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ابھی سکول سے باہر نکلی تھی۔۔ سکول سے باہر بس سٹیشن تک اسے پیدل چلنا پڑتا تھا۔۔ وہ سر جھکائے اپنے راستے جا رہی تھی جب اپنے نام کی پکار پر رکی۔۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو پیچھے اسامہ کھڑا تھا۔۔
"پلیز میری بات سن لیں مس اقراء۔۔"
اسامہ عاجزی سے بولا۔۔
"آپ کہ ساتھ مسئلہ کیا ہے۔۔؟ آپ کیوں میرا پیچھا کر رہے ہیں۔۔؟ "
وہ غصے سے بولی۔۔
"مجھے بس آپ کی مدد کرنی ہے۔۔"
وہ آہستہ سے بولا۔۔
"اور میں کتنی دفعہ بتاؤں آپ کو کہ مجھے نہیں چاہیے آپ کی مدد۔۔ برائے مہربانی میرا پیچھا چھوڑ دیں مجھے سکون سے رہنے دیں۔۔"
وہ غصے سے بولی۔۔
"میں آپ کا پیچھا تب تک نہیں چھوڑوں گا جب تک آپ اپنی مدر کا علاج مجھ سے نہیں کروائیں گی۔۔"
وہ بھی ضدی لہجے میں بولا۔۔
"میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔۔ مجھے آپ خیراتی ہسپتال ہی جانے دیں۔۔"
وہ تلخی سے بولی۔۔
"آپ پیسوں کی فکر مت کریں۔۔ مجھے بس ان کی مدد کرنی ہے۔۔"
"مجھے آپ کا کوئی احسان نہیں چاہیے۔۔"
"میرا دماغ خراب مت کریں مس۔۔ اگر آپ انہیں نا لے کر آئیں تو میں خود آپ کہ گھر پہنچ جاؤں گا اور آپ جانتی ہیں کہ میں ایسا کر بھی سکتا ہوں۔۔"
اسامہ کے سنجیدگی سے کہنے پر اقراء نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔ اور پھر بغیر کچھ کہے وہاں سے چلی گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرکاری ہسپتال کے علاج سے آمنہ بیگم کی طبیعت میں کوئی بہتری نہیں آ رہی تھی البتہ ان کی طبیعت پہلے سے مزید خراب ہوگئی تھی۔۔ اقراء گھر پہنچی تو وہ نڈھال سی بیٹھی تھیں۔۔
"کیا ہوا ہے امی۔۔؟ "
اس نے پریشانی سے پوچھا۔۔
"کچھ نہیں بیٹا بس ویسے ہی طبیعت ڈھیلی ڈھیلی لگ رہی ہے ۔۔"
وہ آہستہ سے بولیں۔ 
"چلیں میں آپ کو ابھی ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں۔۔"
اقراء فوراََ سے بولی۔۔
"نہیں بچے تم کھانا کھاؤ۔۔ میں نے ابھی دوائی کھائی ہے کچھ دیر تک ٹھیک ہو جاؤں گی۔۔"
وہ زبردستی مسکراتے ہوئے بولیں ۔۔
"دیکھ لیں امی۔۔ مجھے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔"
وہ فکر مند ہوئی۔۔
"میں بالکل ٹھیک ہوں اقراء۔۔ تم کھانا کھاؤ جا کر ۔۔"
ان کہ کہنے پر اس نے اٹھ کر کھانا گرم کیا اور کھانے لگی۔۔
ابھی وہ کھانا کھا ہی رہی تھی جب آمنہ بیگم زور زور سے سانس لینے لگیں۔۔ ان کی طبیعت بگڑ رہی تھی۔۔ اقراء نے فوراََ اپنی چادر اٹھائی اور باہر سے رکشہ بلوایا۔۔ انہیں لے کر وہ ایک بھی لمحہ ضائع کیے بغیر ہسپتال پہنچی۔۔ اس بار وہ خیراتی ہسپتال نہیں آئی تھی۔۔ اس بار وہ اسی ہسپتال آئی تھی جہاں اسامہ ہوتا تھا۔۔ ایک ہفتے سے اسامہ نے اس سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔۔ مگر وہ اب اپنی ماں کی صحت پر کوئی رسک نہیں لینا چاہتی تھی۔۔  اب چاہے اسے کچھ بھی کرنا پڑے وہ اپنی ماں کا علاج کسی اچھے ہسپتال سے ہی کروانا چاہتی تھی اور اب اس وقت اسے اسامہ کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نظر نہیں آیا تو وہ انہیں لیے وہیں چلی آئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسامہ اقراء کو وہاں دیکھ کر حیران ہوا تھا۔۔ اسے امید نہیں تھی کہ وہ وہاں آئے گی۔۔ آمنہ بیگم کو چیک کرنے کے بعد اب وہ انہیں دوائیاں بتا رہا تھا جبکہ اقراء زیادہ تر خاموش رہی تھی۔۔
"بیٹا اتنے مہنگے علاج نا بتانا ہمیں جو ہماری استطاعت سے باہر ہوں۔۔"
آمنہ بیگم بولیں۔۔ پچھلی بار اپنی بے ہوشی کی حالت میں انہوں نے اسامہ کو نہیں دیکھا تھا اس لیے وہ اسے نہیں جانتی تھی۔۔ جبکہ آج ان کی طبیعت پہلے کی طرح نہیں بگڑی تھی اس لیے وہ خاموش بیٹھی تھیں۔۔
"آپ فکر مت کریں آنٹی۔۔ آپ کو کوئی بھی اخراجات برداشت نہیں کرنے ہوں گے۔۔ میں خود آپ کا علاج کروں گا۔۔"
اسامہ مسکراتے ہوئے بولا۔۔
"اللہ تمہیں جزائے خیر دے بیٹا۔۔ "
وہ دل سے بولیں۔۔ اقراء بالکل خاموش تھی۔۔ اسی خاموشی کے ساتھ وہ وہاں سے اٹھی اور آمنہ بیگم کو لے کر واپس گھر آ گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Seguir leyendo

También te gustarán

433K 22.9K 53
Mehr-o-Mah (مہر و ماہ) - The sun and the moon A collection of short stories filled with love, spice, drama and a roller coa...
6.3K 703 26
mera ya phla novel hai jo mny 2 saal phly lika tha likn post nhi kr ski thi or i say mojy novel posting k bary ma koi idea nhi tha but know i am goin...
13K 636 7
Highest ranking:#1 in short story Completed Kya kisi ki mohabbat itni gehri ho sakti hai , ke dunya ke har rasm-o-rawaj ko tor kar nibhaayi jaaye...
35.2K 1.6K 14
Novel is being edited right now. I will publish it again soon, In Sha Allah! داستان گو داستاں سنانے کے بعد خاموش ہو جاتا ہے،لکھاری کے کاغذ بھی اس داس...