قسط#4🔫🌌

62 12 0
                                    

گولی اس کو لگی نہیں تھی ، اس کے قریب سے گزر گئی تھی ،لیکن وہ کانپ ضرور رہی تھی۔
" Savage!!" وہ اس کو دیکھ کر درشتی سے چلائی۔
" ظالم انسان!!۔۔۔ کیا ذرا برابر رحم نہیں ہے تم میں؟؟... کیا میں اتنی ہی بری ہوں؟؟" وہ اٹھ کر کھڑی ہوئی اور پھر صوفے پر منہ بنا کر بیٹھ گئی۔
" تو اب بتاؤ کہ عبدل کا ٹھکانا کہاں ہے کیونکہ اس بار اگلی گولی خطا نہیں کھائے گی، سمجھی۔۔۔۔" وہ گہری سنجیدگی سے اس کو دھمکاتے ہوئے بولا۔
" تم!!۔۔۔۔ اف!!!...." وہ غصے سے پھنکاری اور پھر اس نے فون ملالیا۔
" ہاں ڈالیا بول رہی ہوں ، مجھے اس خبیث عبدل کا ٹھکانا معلوم کرکے بتاؤ ابھی!! "
اس نے فون کال بند کردی ۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کو ایک میسج آگیا۔
" یہ لو۔۔۔۔" اس نے میسج دکھایا۔
" اگر یہی کام کچھ منٹ پہلے کردیتی تو یہ سب نہ دیکھنا پڑتا۔۔۔ باہر ہال ، میں دوبارہ آؤں گا۔۔۔۔" وہ کہتا ہوا باہر چلا گیا۔
ڈالیا دانت پیس کر مسکرائی اور اس کو جاتے دیکھتی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفس میں وہ کب سے مصروف تھا۔ نجانے کتنوں کی انفارمیشن اسے نکالنی تھی اور کتنوں کے ٹھکانے اس کو ڈھونڈنے تھے۔
کرن بھی اس کے ساتھ بیٹھی فائلیں کھول کھول کر ڈیٹیلز دیکھ رہی تھی۔ وہ کبھی کبھی ایک عدد فائنل مانگ بھی لیتا تھا۔
نجانے ایسے میں کتنے گھنٹے گزر گئے۔ کرن کا موبائل بجنے لگا اور نمبر پر درج نام دیکھ کر وہ یکدم حیرت کا شکار نظر آنے لگی۔
" رابن!!؟؟؟" وہ سرگوشیانہ بولی اور کال پک کرنے باہر چلی گئی۔
" ہیلو۔۔۔۔ رابن؟؟ کیا یہ تم ہی ہو؟؟"
" ہاں ہاں میں رابن ہمفرے ، تمھارا کزن اور ہونے والا منگیتر بول رہا ہوں خرطوم سے!!! بس۔۔۔ اب خوش؟؟"
" گاڈ!! تو یہ تم ہی ہو۔۔۔" وہ خوشی سے اچھلی۔
" اچھا بتاؤ سب کیسا چل رہا ہے وہاں؟؟ تم نے ایک سال ہوگیا کال ہی نہ کی!! ۔۔۔ حد ہوتی ہے کرن بھولپن کی!!! کہاں تم رابن کے بغیر ناشتہ نہیں کرتی تھی اور آج اس کو ایک دفعہ بھی یاد نہ کیا۔۔۔۔"
رابن ناراض ہوا۔
" اچھا بابا۔۔۔ سوری ،سوری۔۔۔۔تم کیا جانو کہ یہ کام کتنے مصروف ترین ہیں اور اس لیے میں تمھیں کال نہ کرسکی۔۔۔ تم نے بھی تو خود خیریت معلوم نہیں کی ناں۔۔۔۔ مجھ سے تو شکایت کررہے ہو ۔۔۔" وہ بھی آگے سے ناراضگی سے بولی۔
" اچھا چھوڑو۔۔۔ قصور تو دونوں کا ہے۔۔۔ بولو۔۔۔ میری جان کیا کررہی ہے؟؟"
" رابن۔۔۔ اب یہ سب جان وان نہ کہو مجھے۔۔۔۔ اچھا۔۔۔"
" اوہ۔۔۔بےبی کو شرم آتی ہے۔۔۔۔"
" نہیں۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ "
" اچھا بتاؤ کیسا جارہا ہے کام۔۔۔"
" بہت اچھا۔۔۔ تم سناؤ ؟؟ بزنس کہاں تک پہنچا؟؟ ڈیڈی کیسے ہیں۔۔۔؟؟؟ چچا ہمفرے کیسے ہیں؟؟"
" سب فٹ فاٹ ہیں۔۔اور بزنس بھی ٹھیک جارہا ہے۔۔۔۔ ویسے ایک بات بتاؤ، ڈونٹ یو مس می؟؟؟"
" آہ۔۔۔ہم۔۔۔۔ یہ پوچھنے کی بات ہے؟؟"
" ہاں ناں۔۔۔ کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ تم کہیں اور دل لگی تو نہیں کر بیٹھی۔" وہ کہہ کر ہنسا۔
" رابن!!... شرم کرو۔۔۔ یہ کیا کہہ رہے ہو۔۔۔ یہاں سب میرے دوستوں جیسے ہیں۔۔۔ سینئر ہیں۔۔۔ دل لگی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔"
" اچھا۔۔۔ میں جانتا تھا تمھیں۔۔۔تم ایسا نہیں کر سکتی۔۔۔اچھا بتاؤ پاکستان پسند آیا تمھیں؟؟ ویسے لگتا ہے کہ زیادہ ہی پسند آگیا ہے۔۔۔ اسی لیے ادھر ہی کی ہو کر رہ گئی ہو اور ادھر چکر بھی نہیں لگاتی۔۔۔ !!"
" لگاؤں گی ابھی ایک اور مشن گزر جانے دو۔۔۔۔پھر..."
" کونسا مشن؟؟"
" سرکاری مشن۔۔۔ خوفیہ مشن۔۔۔ اچھا مجھے یاد آیا مجھے جانا ہے ، پھر بات کروں گی۔۔۔ نہیں تو باس خفا ہو جائیں گے۔۔۔"
" باس؟؟ اوہ تمھارا کوئی باس بھی ہے؟؟"
" ہاں ناں۔۔۔ گھڑوس سا آدمی ہے۔۔۔"
" اوہو۔۔۔۔ کرن۔۔۔۔ باس ایسے ہی ہوتے ہیں۔۔۔ اچھا دکھنے میں کیسا ہے؟؟ کوئی بوڑھا آدمی ہے؟؟"
" نہیں نہیں۔۔۔۔ اچھا خاصا جوان آدمی ہے لیکن جس کی جوانی کو زنگ لگ جائے اس کو جوان کیسے کہیں۔۔۔۔"
" اوہ۔۔۔ اچھا۔۔۔۔ "
" اچھا میں فون رکھ رہی ہوں۔۔۔ خدا حافظ۔۔۔" اس نے کال بند کردی۔
وہ دوبارہ آفس میں آئی اور اگلا منظر حیران کردینے والا تھا۔
سامنے وہ میز پر بازو ٹکائے سویا ہوا تھا اور اس وقت ایک معصوم سا بچہ لگ رہا تھا۔ گال سرخ اور ساکت جسم۔
کرن کچھ قریب چلی آئی اور وہ کوٹ اٹھا کر اس پر ڈالنے ہی لگی تھی کہ وہ جاگ پڑا۔ وہ ہڑبڑا کر دوسری جانب مڑی۔

" اگر تھک گئے تھے تو سیدھی طرح جاکر سو نہیں سکتے، کچھ دیر؟؟"
" وہاٹ۔۔۔ نہیں۔۔۔سو کون رہا تھا؟؟" وہ اب اپنی آنکھیں دبائے ہوئے تھا۔ چہرے پر سرخی چھائی ہوئی تھی۔
" میں !!... جاؤ جاکر آرام کرلو۔۔۔ " وہ اس کو زبردستی اٹھاتی ہوئی بولی۔
اس نے بڑے آرام سے اپنا بازو چھڑا لیا۔
" ہاں تو کیا کام ہورہا تھا؟؟" وہ پھر مصروفیت سے پوچھنے لگا۔
" آف!!!"
وہ کرسی پر دھڑام سے بیٹھ کر اس کو فائنل پکڑاتے ہوئے بولی۔ اسے آرام کے بادل نظر آتے آتے رہ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" مال دکھاؤ۔۔۔۔" اس نے رعبدار آواز میں کہا۔
" جی جناب۔۔۔یہ دیکھیں۔۔۔ یہ نئا مال ہے۔۔۔" اس نے چند لڑکیوں کی جانب اشارہ کیا۔
" کیا کہتے ہیں پھر؟؟؟ اس کو بھجوا دیں؟؟؟" کسی دوسرے نے پوچھا۔
" ہاں ، ٹھیک ہے۔۔۔۔ جاؤ ان کو بھجوا دو اور ہاں۔۔۔۔ بقیہ تمام مال بھی لا کر دکھاؤ اور اس کے بعد اسے آگے بھجوانے کی تیاری کرنا۔"
" جی جناب۔۔۔" اس نے اشارہ کیا اور چند افراد ان لڑکیوں کو لے گئے۔
وہ آرام سے مشروب کے مزے لینے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" انکل۔۔۔ آپ کا بیٹا اتنا ورکاہالک (workaholic) کیوں ہے؟؟... اسے آرام کرنا نہیں آتا؟؟" وہ انکل ریاض سے شکایت کررہی تھی۔
" بیٹی بس بچپن سے اس کی عادت ایسی ہی ہے۔۔۔ میں نے کب اسے آرام کرنے کو نہیں کہا مگر وہ مانے تب ناں۔۔۔"
" آپ کا بیٹا اپنی من مانی کرتا ہے ، انکل۔۔ سیدھی بات یہ ہے۔۔۔" وہ منہ بنا کر بولی۔
وہ ہنسے۔
" ہاں ہاں بالکل۔۔۔ ٹھیک کہا تم نے۔۔۔۔"
" لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ بالکل آپ پر نہیں گیا ، آپ جیسا تو ہے ہی نہیں۔۔۔ "
وہ یہ سن کر چپ سے ہوگئے جیسے اس بات کا ان کے پاس جواب ہی نہ ہو۔
" کیا ہوا، انکل؟؟ اگر میں نے کچھ غلط کہہ دیا ۔۔۔"
" ارے نہیں بیٹی۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔ " وہ اداسی سے مسکرائے تھے۔
" اور ایک اور بات ، آپ ہنستے ہیں ، مسکراتے ہیں لیکن وہ ہنستا ہی نہیں؟؟ آئی مین ہر انسان ہنسنا جانتا ہے اور ایک وہی ہے جس کا چہرہ صرف مسکراہٹ کی حد تک کامیاب ہو پاتا ہے۔۔۔۔ ایسا کیوں؟؟"
" بس بیٹا۔۔۔ دیکھو ، ہنسنا ماں سکھاتی ہے اور بچپن سے اس کی کوئی ماں نہیں تھی کیونکہ وہ بہت پہلے فوت ہوگئی تھیں جس کے بعد میں نے دوبارہ شادی نہیں کی اور دوسرا یہ کہ میں نے اس کو ماں اور باپ ،دونوں کے روپ میں پالا ہے۔ لیکن میں خود اس وقت بہت مصروف آدمی تھا۔ ہنسنا کھیلنا تو جیسے اس کو آتا ہی نہیں تھا۔ میں کوشش کرتا تھا لیکن ندارد۔۔۔۔ "
" اوہ۔۔۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ اس کی بھی بچپن میں مدر نہیں تھیں۔۔۔ " وہ اداس ہوگئی۔
" کیا ہوا بیٹی؟؟ چہرہ کیوں اتر گیا؟"
" انکل میں نے بھی اپنے ابو کے ساتھ لائف گزاری ہے ، مدر تو میری بھی نہیں تھیں۔۔۔۔ میں نے ان کو بہت بچپن میں دیکھا تھا۔ لیکن ڈیڈی نے کبھی ان کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔"
کرن کہتے کہتے اداسی سے اپنی نم ہوتی آنکھیں صاف کرنے لگی۔
" بس بیٹا۔۔۔ہر ایک کی زندگی ایسی ہی ہے۔۔۔ مشکلات اور دکھوں سے بھرپور لیکن جینا تو ہوتا ہے ناں۔۔۔ زندہ تو رہنا ہوتا ہے۔۔۔۔ سو اس کی کوشش ہم کرسکتے ہیں اور وقت سب سے بڑا مرہم ہے۔ باقی اللّٰہ کی مرضی۔"
وہ بولے اور انھوں نے نرمی سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اور اٹھ کر چلے گئے۔
وہ اپنے کمرے میں آگئی۔
آج فضا سوگوار ہوگئی تھی۔ آیک ٹھنڈے وجود کا جواب اسے آج مل گیا تھا۔ لیکن ابھی بھی ایک سوال اس کے دماغ میں منڈلا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Enjoy the episode and don't forget to VOTE ❤️☺️....

Black cobra (Action by chance #3)Where stories live. Discover now