بکھرتی چاندنی

Comenzar desde el principio
                                    

ایک چاند تنہا کھڑا رہا،میرے آسماں سے ذرہ پرے
میرے ساتھ ساتھ سفر میں تھا میری منزلوں سے ذرہ پرے

میری جستجو کے حصار سے تیرے خواب تیرے خیال سے
وہ شخص ہوں جو کھڑا رہا تیری چاہتوں سے ذرہ پرے

کبھی دل کی بات کہی نہ تھی جو کہی تو وہ بھی دبی دبی
میرے لفظ پورے تو تھے مگر تیری سماعتوں سے ذرہ پرے

تو چلا گیا میرے ہمسفر ذرا مڑ کر دیکھ تو اک نظر
میری کشتیاں ہیں جلی ہوئی تیرے ساحلوں سے ذرہ پرے
************************
صبح نیلم کی وادی پر ہمشہ کی طرح شفاف اور روشن ہوئی تھی وہ ریسٹ ہاوس کے پاس کھڑی انہیں رخصت کرنے آئی تھی بلو جینز کے ساتھ گرے ہوڈی پہنے وہ اپنے ہاتھوں کو آپس میں باہم رگڑ رہی تھی حزیمہ بختیار ابھی ریسٹ ہاوس نہیں آئے تھے وہ تو آج براق میر اور اس کا گروپ واپس جارہا تھا اس لیے وہ صبح صبح اٹھ کر انہیں خدا حافظ کہنے آگئی۔
" بہت شکریہ ریحا! تم نے ہمیں اتنے اچھے سے نیلم کی سیر کروائی یقین جانو اگر تم یہاں ہمارے ساتھ موجود نہ ہوتی تو اس خوبصورت وادی کے حسن کا تجزیہ ہم اتنی گہرائی اور باریک بینی سے کبھی نہ کرپاتے۔"
براق اس کے سامنے کھڑا اس کا شکریہ ادا کررہا تھا۔
" کیسی باتیں کررہے ہو تم خود ہی تم نے بولا تھا ہم دوست ہیں اور اب خود ہی شکریہ ادا کرکے شرمندہ کررہے ہو۔"
ریحا منہ بنا کر بولی تو وہ سب ہنس دیے۔
" اب تمہیں چائیے کہ لاہور آو ہمارے پاس."
ان میں سے ایک بولا تو وہ بھی مسکرا دی۔
" میں نے لاہور کی یونیورسٹی میں اپلائی کیا ہوا ہے جیسے ہی میرا ایڈمیشن ہوجائے گا میں لاہور ضرور آوں گی۔"
ریحا نے ہوڈی کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا تو وہ سب خدا حافظ کہتے ہوئے جیپ میں بیٹھ گئے۔
" امید کرتا ہوں ہم جلد ہی دوبارہ ملیں گئے۔"
براق کے کہنے پر وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی مسکرائی تھی دیکھتے ہی دیکھتے جیپ سٹارٹ ہوکر اس کی نظروں کے سامنے سے اوجھل ہوگئی تھی اتنے دنوں میں پہلی بار وہ اداس ہوئی تھی اس نے یہ کچھ دن براق اور اس کے گروپ کے ساتھ بہت مزے کرتے ہوئے گزارے تھے اور اب ان کے اس طرح واپس چلے جانے سے وہ حقیقی معنوں میں اداس ہوئی تھی۔
وہ جیبوں میں ہاتھ ڈالے پیدل گھر کی طرف چل جارہی تھی سوچوں کے گرداب میں پھسی وہ بڑی احتیاط سے ڈھلوانیں اتر رہی تھی۔ صبح کی خاموش فضا کو اس کی جیب میں رکھے ہوئے فون نے توڑا تھا اس نے جینز کی جیب میں ہاتھ ڈال کر فون باہر نکالا تو جیسے وہ لڑکھڑاتے لڑکھڑاتے بچی اوپر میراب کی کال آرہی تھی اتنے دنوں بعد اس کا فون دیکھ کر ریحا کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا مگر خود کو سمبھالتے ہوئے اس نے کال اٹھائی تھی۔
" ہیلو!"
آواز کو حتی المکان نارمل بناتے ہوئے وہ مخاطب ہوئی تھی ورنہ یوں محسوس ہورہا تھا جیسے آنسوں کا کوئی گولہ حلق میں اٹک گیا ہو۔
" میں آج نیلم آرہا ہوں مجھے تم سے ملنا ہے۔"
" کیوں کس وجہ سے ملنا ہے آپ کو مجھ سے؟"
وہ سپاٹ لہجے میں بولی تو دوسری جانب میراب بخت نے جیسے صبر کے گہرے گھونٹ بھرے۔
" جگہ بتاو کہاں ملو گی سوال سارے مل کر کر لینا۔"
دوسری جانب سے بھی سرد ترین لہجے میں جواب دیا گیا تھا۔
" جھیل والے کیفے ٹیریا میں۔"
اس نے مختصر بات کرکے فون بند کردیا دل کی دھڑکنوں میں اشتعال برپا ہوا تھا کتنے دنوں سے وہ صبر سے بیٹھی ہوئی تھی مگر اب اس کے ملنے والی بات پر ریحا کی محبت عود کر دوبارہ کسی تازے زخم کی طرح رونما ہوئی تھی جس میں سے رسنے والی تازہ پیپ اس کے وجود کو گہری چوٹیِں لگا رہی تھی۔
*******************
صحن میں رکھی ہوئی واحد چارپائی پر وہ بوڑھا وجود آنکھیں بند کیے دراز تھا حلق پیاس کے مارے خشک ہورہا تھا مگر پانی کے لیے کسی کو آواز دینے کی بھی وہ اپنے اندر ہمت نہیں پارہی تھیں۔
" شائستہ!"
ان کی پکار بہت ہی آہستہ تھی کہ کمرے میں حھاڑو لگاتی شائستہ بامشکل ہی سن پائی۔
" جی! اماں جی!"
شائستہ ان کی پکار پر ہمشہ کی طرح لبیک کہتی حاضر ہوئی تھی۔
" پا۔۔پانی دے ایک۔۔گلاس."
خشک حلق سے بامشکل آواز نکالتی وہ شائستہ کو اپنا مدعا سمجھانے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ کچھ فاصلے پر رکھے مٹی کے گھڑے میں سے شائستہ نے سٹیل کا گلاس بھر کر ان کی جانب بڑھایا تھا جسے بغیر آنکھیں کھولے وہ ایک ہی سانس میں خالی کرگئی تھیں۔
" آج پیر صاحب کا دیا ہوا دم نہیں پڑنا کیا اماں جی؟"
شائستہ صحن کے کونے میں جھاڑو رکھتی ہوئی ان کے نزدیک چارپائی پر ہی ایک جانب کو بیٹھی تھی۔
" جی نہیں چا رہا آج یوں معلوم ہورہا جیسے اس دم کو پڑھ کر بھی میرا کام ادھورا ہی ہوگا۔"
اماں جی کے لہجے میں دکھ کی گہری کیفیات پوشیدہ تھیں۔
" نہ اماں جی! اللّٰه کا کلام کہاں کچھ ادھورا چھوڑتا وہ تو کسی نہ کسی طرح سارا نسخہ پورا کر ہی دیتا ہے۔"
شائستہ نے ان کے ہاتھ سے گلاس لیتے ہوئے کہا تو وہ واپس آنکھیں موند کر چارپائی پر لیٹ گئی۔
" کبھی کبھی میں سوچتی ہوں شائستہ کہ میں اب تک زندہ کیوں ہوں اللّٰه نے آہستہ آہستہ مجھ سے میرے سارے بچے اپنے پاس بلا لیے کچھ کا معلوم بھی نہیں کہ وہ زندہ ہیں کہ نہیں اور کچھ کے تو چہرے دیکھ کر میں نے خود منوں مٹی تلے دفنایا۔"
ان کی نحیف آنکھوں سے آنسوں کا ایک ناتمام ریلا جاری ہوا تو شائستہ نے آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔
" اماں جی! جو چلے گئے ان پر کیا آنسو بہانا جو ہیں ان پر شکر ادا کرنا چاہیے آپ کے پاس تو ابھی بھی آپ کے جینے کی وجہ موجود ہے براق میر آپ کا پوتا۔"
شائستہ کے جملے پر ان کے پیوستہ لبوں سے دھیرے سی مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی وہ مزید بھی کچھ کہنے والی تھی مگر لکڑی کے دو پنوں والے دروازے پر ہونے والی دستک نے اس کی توجہ کھینچ لی۔
وہ صحن سے ہوتی ہوئی دروازے تک پہنچی تھی زنجیر والی کنڈی ہٹا کر اس نے دروازے کے دونوں پٹ کھولے تو خوشی سے کھل اٹھی سامنے اپنے چھوٹے ہینڈ کیری سمیت براق میر کھڑا تھا۔
" اسلام علیکم شائستہ باجی!"
اس نے اپنی ہمشہ والی خوش اخلاقی نبھاتے ہوئے سلام کیا تھا۔
" وعلیکم اسلام کیسے ہو براق؟"
شائستہ براق کی دادی کی دیکھ ریکھ کئی سالوں سے کررہی تھی. براق کے بابا ہی شائستہ کو گھر لے کر آئے تھے تب سے براق بھی ان کی بے حد عزت کرتا تھا۔
" بے جی سو رہی ہیں کیا؟''
گھر میں خلاف توقع خاموشی دیکھتے ہوئے اس نے اپنی دادی کی بابت پوچھا تھا۔
" نہیں سو نہیں رہی بس آج زرہ اداس ہیں صبح سے یہی دھوپ میں چارپائی پر لیٹی ہوئی ہیں۔"
شائستہ نے کہتے ہوئے اماں جی کی چارپائی کے برابر میں دوسری چارپائی لاکر بچھائی براق اپنا سوٹ کیس رکھ کر وہی بیٹھ گیا۔
" بے جی!"
اس نے ان کا بازو ہلایا تو انہوں نے اپنی بند کی ہوئی آنکھوں کو دھیرے دھیرے کھولا جس سے براق میر کا انہیں دھندلا عکس دیکھائی دیا تھا۔
"براق میرے بچے! تو آگیا؟"
اماں جی نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشیش کی تھی۔
" کیسی ہیں آپ طبعیت ٹھیک ہے آپ کی؟"
ان کی ٹانگوں کو تھامتے ہوئے اس نے پوچھا تو انہوں نے اپنے بوڑھے ہاتھ اس کے چہرے کے اردگرد رکھے۔
" تیرا چہرہ مجھے کسی کی بڑی شدت سے یاد دلاتا ہے براق! وہی آنکھیں وہی ناک بہت خوبصورت اور دلکش نقوش ہیں تیرے بالکل اس کے جیسے."
وہ کسی ٹرانس کی کیفیت میں کھوئی ہوئی اس سے کہہ رہی تھیں براق نے کچھ ناسمجھی سے ان کی جانب دیکھا تو شائستہ نے اس کی مشکل آسان کردی۔
" جاو براق تم تازہ دم ہوجاو میں تمہارے لیے کچھ کھانے کو لاتی ہوں پھر تم نے وعدہ کیا تھا مجھ سے واپس آکر اپنے سفر کے سارے قصے مجھے سناو گئے۔"
شائستہ نے مسکرا کر اسے یاد دہانی کرائی تو وہ بھی مسکرا دیا۔
" فکر ہی نہ کرے شائستہ باجی! آپ کو سنانے کے لیے میرے پاس بڑے زبردست قصے ہیں۔"
اس نے مسکرا کر کہا تو شائستہ کے تجسس کو اور ہوا مل گئی۔
" کیا کسی لڑکی کا بھی قصہ ہے بیچ میں؟"
وہ اس سے نزدیک ہوتے ہوئے خاصے رازدرانہ لہجے میّ پوچھ رہی تھی جس پر براق کا منہ دیکھنے لائق تھا۔
" عجیب لڑکی ہیں آپ بھئی آپ کو تو یہ پوچھنا چائیے کہ کیا کسی لڑکے کا بھی قصہ ہے لیکن آپ کا تو کام ہی الٹا ہے۔"
براق نے مسکراہٹ دبا کر کہا تو شائستہ نے اسے گھور کر دیکھا۔
" توبہ کیسی بے حودہ باتیں کرتے ہو تم."
وہ کانوں کو ہاتھ لگاتی صحن کے ایک جانب کو بنے باورچی خانے میں چلی گئی جبکہ وہ قہقہ لگاتے ہوئے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
براق میر لاہور میں پڑھنے کی غرض سے گیا ہوا تھا اس کا باپ ایک زمہ دار تھا وہ راجن پور گاوں میں بہت عرصے سے رہتے تھے اپنی تمام تر زمینوں کو بیچ کر براق میر کی دادی نے اسے پڑھنے کے لیے شہر بیجھوایا تھا وہ یونی ورسٹی سے ملاحقہ ہوسٹل میں رہائش پذیر تھا اور چھٹیوں میں راجن پور اپنی دادی کو ملنے اکثر آیا کرتا تھا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ براق میر اپنی دادی کے جینے کی وجہ تھا۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
حیرت انگیز طور پر وہ اب کی بار بغیر کسی کو بھی ملے لال حویلی سے شہر کے لیے نکل گیا تھا حسب معمول راحت علی گاڑی چلا رہا تھا اور وہ پچھلی سیٹ پر بیٹھا خود سے ہی ایک جنگ میں تھا اسے پہلے گھر جانا تھا اور پھر وہاں سے فریش ہوکر باہمین سے ملنے وہ اسے مل کر آج اپنے دل کی بات بتانے والا تھا وہ نہیں جانتا تھا کہ اس نے یہ فیصلہ کیوں کیا ہے حتی کہ اس کے پاس باہمین زاہرہ سے اپنے دل کی بات کرنے کی کوئی وجہ نہیں بچی تھی وہ چاہ کر بھی اس سے شادی نہیں کرسکتا تھا کیونکہ لال حویلی کی دستار اس کے پیروں میں بندھی ہوئی ایک ایسی بیڑی تھی جو اس کی مرضی میں گہری رکاوٹ ثابت ہورہی تھی وہ اس بیڑی کے وزن کے ساتھ چند قدم ہی آگے چلتا تھا کہ لڑکھڑا کر رک جاتا تھا اور پھر اسے پیچھے کی جانب آنا پڑتا۔
" سرکار! کیا آپ ٹھیک ہیں؟"
راحت علی نے بیک ویو مرر سے جھانکتے ہوئے اس سے پوچھا تو وہ چونک کر اس کی جانب متوجہ ہوا۔
" تم نے شاید ٹھیک کہا تھا راحت علی! ہماری یہ بے بسی لال حویلی پر ایک تباہی کی طرح آسکتی ہے مگر یہ تباہی تو تب ہی آئے گی نہ راحت علی! جب لال حویلی ہمیں ہماری خوشی دے گی ہمیں بہت افسوس ہوتا ہے کہ لال حویلی میں ظرف کی بے انتہا کمی ہے وہاں کے مکین بے حس ہیں جن پر کسی کی چوٹ کسی کے درد کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔"
لہجہ ٹوٹا بکھرا ہوا تھا۔
" مگر اب ہم نے بھی سوچ لیا ہے کہ ہر بار لال حویلی کی خاطر قربانی نہیں دی جاسکتی۔"
لہجے میں کچھ تو عجیب تھا جس نے راحت علی کو بھی گردن موڑنے پر محبور کیا تھا۔
" سرکار! یہ کیسی باتیں کررہے ہیں آپ اللّٰه نہ کرے لال حویلی اور آپ پر کبھی ایسا وقت آئے کہ آپ کے دل اور لال حویلی کے وقار کو شکست ہو۔"
گاڑی ایک بار پھر سے رفتار پکڑ چکی تھی وہ آنکھیں موند گیا تھا کیونکہ آنکھوں میں مرچیں سی چبھ رہی تھیں۔
" کاش انسان کسی کو چاہتا اور اس کی چاہت فوری پوری کردی جاتی۔"
دل سے ایک ہوک سی اٹھی تھی۔
" ایسا تو جنت میں ہوتا ہے آبیان بخت! دنیا میں نہیں دنیا میں تو دے کر بھی آزمایا جاتا ہے اور لے کر بھی۔"
دماغ نے ایک خوبصورت اور روشن سا جواب دیا تھا۔
" انسان آزمائش پر کیسے پورا اتر سکتا ہے کہ جو چاہتا ہو وہ جیت کی صورت میں اسے مل جائے؟"
دل پھر سے دماغ کے ساتھ الجھ پڑا تھا۔
" ہر آزمائش پر ثابت قدمی سے کھڑے رہ کر ہی اترا جاسکتا ہے جہاں قدم لڑکھڑائے اور عجلت مچی وہی پر ثابت قدمی کا زور ٹوٹ گیا اور جہاں ثابت قدمی کا زور ٹوٹا وہی آزمائش میں ہار ہوگئی۔"
کیا خوب سجھاو تھا یہی تو بات تھی اس شخص میں کہ اس کا دماغ اس کے دل سے زیادہ اچھا کام کرتا تھا۔
گاڑی بنگلے کے سامنے رک چکی تھی دل و دماغ کی جنگ میں سارا راستہ کیسے کٹ گیا اسے بالکل پتہ نہیں چلا تھا۔ گاڑی سے اتر کر وہ عجلت میں اندر کی جانب بڑھا تھا دروازے پر ہی اسے جمال بی مل گئی تھیں اور اتنے عرصے میں پہلی بار جمال بی اسے دیکھ کر یوں چونکی تھیں بظاہر نک سک سا تیار وہ انسان آنکھوں سے ویران معلوم ہورہا تھا۔
" سرکار! کیا ہوا ہے آپ کو آپ مجھے ٹھیک نہیں لگ رہے؟"
جمال بی نے اس کے ہاتھ سے کوٹ لیتے ہوئے پریشانی سے کہا تو وہ طنز سے مسکرایا۔
" جمال بی! لال حویلی سے کون ٹھیک آسکتا ہمیں لگتا وہ ایک ایسا آسیب ہے جو جسم کے حصوں سے خون نچوڑ کر اپنی بنیادیں سرخ کرجاتی ہے۔"
اپنی بات کہہ کر وہ جواب کے انتظار میں رکا نہیں تھا بلکہ تیزی سے سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا تھا۔
پیچھے جمال بی بس اس کی قسمت پر افسوس کرتی رہ گئی تھیں کیونکہ وہ جاتے ہوئے ایک ایسی بات کرگیا تھا جو سننے میں بے حد عجیب لگتی تھی مگر اپنے اندر حقیقت کا ایک جہان آباد کیے ہوئے تھی۔
" یااللّٰه بخت سرکار کی جھولی کو خوشیوں سے بھر دے میرے مالک ان کے حصے میں آزمائشیں نہ لکھنا جو وہ چاہتے انہیں عطا کردے یااللّٰه !"
جھولی کو آسمان کی طرف پھیلا کر وہ صدقے دل سے اپنے بخت سرکار کے لیے دعا گو تھیں کیا پتہ اللّٰه کس کی دعا کب سن لے کس کے لفظوں کی تاثیر سے کس کی تقدیر بدل جائے یہ تو وہی بہتر جانتا ہے جو کاتب تقدیر ہے جس کے ہاتھ سے ہم انسانوں کی قسمت کی کنڈلی لکھی جاتی ہے پھر کسے معلوم کہ وہ کس پنے میں کیا لکھتا ہے کس کاغذ کو سنہری سیاہی سے بھرتا ہے تو کس پر سفید ی کی بارش ہوتی ہے۔ کبھی کبھی سفیدی کے لبادے میں سنہری کنیاں آپ کے اوپر گررہی ہوتی ہیں مگر آپ کے پاس دیکھنے والی آنکھ نہیں ہوتی اگر یہ آنکھ ہو تو آپ اندازہ لگا سکیں کہ وہ آپ کو کس قدر نوازتا ہے۔
ع سے عرصہ بیت گیا اس عشق میں لیکن
ع سے عشق کا عذاب جھیلنا نہ آیا مجھ کو

چھنکار مکمل✅Donde viven las historias. Descúbrelo ahora